عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



اس بنا پر، اس بزدلانہ تانے بانے سے ھوشیار کرنے کے لئے ایک شرعی ذمہ داری ھے نیز مسلمانوں کو ان کے خطرناک ارادوں اور منحوس منصوبوں سے آگاہ کرنا نیز ان کے ایمان کی (قرآن۔ سنت اور اھلبیت) خالص دین کے مضبوط حصار میں حفاظت کرنا واجب ھے۔

ھماری اس تالیف میں مہدویت کے بارے میں گفتگو در حقیقت اسلام کا وھی خالص پیغام ھے، لہٰذا اسی دینی وظیفہ پر عمل کے عنوان سے اس کا اندازہ لگایا جائے۔

 Ø§Ø³ مبسوط اور مفصل تحقیق Ú©Û’ درمیان واضح ھوا کہ آخرزمانہ میں امام مہدی(علیہ السلام) Ú©Û’ ظھور پر عقیدہ رکھنا اسلام Ú©Û’ جاوید، دائمی پیغام پر یقینی طور پر اعتماد کرنے کا لازمہ Ú¾Û’ اور اس کا قبول نہ کرنادر حقیقت اسلام Ú©Û’ واضح بیان Ú©ÛŒ تکذیب کرنا Ú¾Û’ کہ جس Ú©Û’ واقع ھونے Ú©ÛŒ خبر دی گئی Ú¾Û’Û”

 Ú¾Ù…ارے خیال میںاس کتاب میں (خصوصاً سلاست Ùˆ روانی، طرزبیان اور ادلہ وبراھین Ú©Û’ متقن Ùˆ محکم ھونے Ú©Û’ اعتبار سے خصوصی عنایت رکھی گئی Ú¾Û’) اھم اور قابل قدر مطالب بیان کئے گئے ھیں جو اسے تمام دےگر آثار Ùˆ تالیفات سے ممتاز کرتے ھیں کیونکہ اس کتاب میں امام منتظرا ور مہدی(علیہ السلام) موعود کا افکار اسلامی Ú©Û’ دائرے میں کیا مقام Ú¾Û’ اس کا شائستہ جواب دیا گیا Ú¾Û’Û”

چوتھی فصل کے تعلیقے

(۱)مقدس اور عظیم حکیم جناب خواجہ نصیرالدین طوسی جو علوم عقلی کے میدان میں بے نظیر، ماھر فن اور نابغہ روزگار شمار ھوتے ھیں، اس سلسلہ میں فرماتے ھیں:

مخلوق کا امام سے محروم ھونا اور ان کے غائب ھونے کی علت، چونکہ معلوم ھے کہ خدا وند سبحان کی طرف سے نھیں ھے اور نہ ھی (خود) امام(علیہ السلام) کی طرف سے ھے بلکہ یہ مخلوق کی طرف سے ھے اور جب تک یہ علت زائل نھیں ھوگی ظھور نھیں کریں گے؛ کیونکہ علت کے زائل اور حقیقت کے کشف ھونے کے بعد خدا کی حجت مخلوق پر ھو گی نہ مخلوق کی خدا پر، حضرت مہدی(علیہ السلام) کی طولانی عمر پر حیرت کرنا اور اسے بعید شمار کرنا چونکہ اس کا ممکن ھونا معلوم ھے محض جھل ھے۔ [18]

ماھر حساب ایرانی فلسفی فرھنگ شناسی کا عظیم مورخ ابوریحان بیرونی (متولد ۳۶۲ھ) جو عالم اسلام میں صف اول کے محقق شمار ھوتے ھیں اس سلسلہ میں ان کے قابل توجہ، عمدہ اور خالص بیانات ھیں جسے ھم بیان کررھے ھیں حشویہ اور دھریہ مذھب کے بعض نادانوں نے گذشتہ طول عمر کے بارے میں انکار کیا ھے۔ اسی طرح اس امر کو کہ گذشتگان عظیم پیکر کے مالک تھے صحیح نھیں جانا ھے، اور اپنے دور کے لوگوں پر قیاس کرتے ھوئے گذشتہ لوگوں کے عظیم جسم و جثہ اور طول عمر کو امکان سے باھر اور محالات میں شامل جانا ھے۔۔۔ یہ لوگ منجمین کی باتوں کو درست سمجھ نھیں سکے اور عالم طبیعت میں نجوم کے صحیح التاثیر معیار کے خلاف استدلال کیا ھے۔

۔۔۔اس بنا پر جودلیلیں دھریوں نے منجمین کے بقول پیش کی ھیں،صحیح نھیں ھیں۔ کیونکہ نجومی حضرات طول عمر کو محال نھیں جانتے، بلکہ ان کے نقل شدہ آراء واقوال کے مطابق اسے ایک مسلم اور ثابت شدہ امر جانتے ھیں۔ اگر انکار کرنا اتنا آسان ھو کہ جو بھی لوگوں کے زمانے یا علاقے میں رونما نہ ھو اسے انکار کردیں۔ جب کہ عقل اُسے محال نھیں جانتی اگر بناء ھو کہ جو کچھ لوگوں کے سامنے ظاھر نہ ھو قابل قبول نھیں ھے تو لوگوں کو بڑے بڑے حادثوں پر یقین نھیں کرنا چاہئے، کیونکہ بڑے حوادث ھر وقت اور ھر گھنٹہ رونما نھیں ھوتے اور جب کسی صدی میں کوئی اتفاق ھو تو آئندہ والے اس صدی کے بعد والے لوگوں کے لئے ایک متواتر اور تاریخی نقل کے سوا کچھ نھیں رہ جاتا۔لہٰذا یہ نھیں ھونا چاہئے کہ جو ھم نے نھیں دیکھا ھے اور سنی سنائی باتوں کے ذریعہ واقف ھوئے ھیں اس کا انکار کردیں کیونکہ یہ محض مغالطہ اور حقائق سے انکار ھے۔ اےسے لوگوں پر لازم ھے کہ انھوں نے جن شھروں یا انسانوں کو خود نھیں دیکھا ھے اس پر یقین نہ کریں۔ (جب کہ اےسا نھیں ھے) ابو عبد اللہ حسین بن ابراھیم طبری ناتلی کا میں نے ایک مقالہ دیکھا جس میں اس نے طبیعی عمر کی مقدار معین کی تھی اور آخری عمر اس نے ۱۴۰/سال شمسی قرار دیتے ھوئے کھا: اس سے زیادہ زندہ رھنا نا ممکن ھے، جب کہ جو کوئی بطور مطلق کہتا ھے کہ:”اےسا ممکن نھیں ھے“ اسے دلیل دینا چاہئے تا کہ اطمینان حاصل ھوسکے۔۔۔ اگر ھم انسان کے کمال کو تین مرحلہ میں تصور کریں اور ناتلی کی طرح ھر ایک کے لئے ایک عدد کے قائل ھو ں اور آخر کار۔ (اگر ھم سے دلیل مانگیں تو ھم خوف زدہ نہ ھوں، گھبرائیں نھیں) اور کھیں کہ ان کمالات تک پھونچنے کی مدت سوسال یا ہزار سال ھے یا اس کے مانند تو اس وقت ھمارے اور ناتلی کے درمیان (بے دلیل بات کھنے اور قضاوت کرنے میں) میں کوئی فرق نھیں رہ جائے گا[19]

(۲) ”وایز من“جرمن کا رھنے والا بیولوژیست (بائیلوجی کا ماھر) اس سلسلہ میں اھم بات کہتا ھے:

موت طبیعی قوانین کا لازمہ نھیں ھے او عالم طبیعت میں ابدی عمر سے لیکر ایک لحظہ کی عمر تک ھر قسم کی عمر پائی جاتی ھے۔ جو چیز طبیعی اور فطری ھے، وہ جاویدانی اور دائمی عمر ھے!اس بنا پر ”متو شالح“ کی نو سو انہتر (۹۶۹) سال عمر نہ عقل کے نزدیک مردود ھے اور نہ ھی علم کے نزدیک۔ ھمارے اس عصر میں میزان عمر بڑھ چکی ھے اور اس پر کوئی دلیل بھی نھیں ھے کہ اس سے آگے بڑھ نھیں سکتی اور ایک دن ایسا نھیں آئے گا کہ انسان کی عمر نو سو (۹۰۰) سال تک پھونچ جائے گی[20]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next