عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



۱۔ عظیم عالمی انقلاب سے متعلق اقدام کرنا اور اس کی عمارتوں اور معاشرہ کے اجتماعی، ثقافتی، سیاسی اور اعتقادی نظام کو سرنگوں کرنے کے لئے ایک فوق العادہ روحانی توانائی کی ضرورت ھے، یعنی اس انقلاب کا قیادتی ڈھانچہ سچے یقین اور اصل اساس پر ھونا چاہئے جو دنیاوی قوی تمدن کوشکت دینے اور اس کی صلاحیتوں کو مضمحل بنانے کی صلاحیت رکھتا ھو اوریہ یقین تاریخی مطالعہ سے حاصل ھونے والا نھیں ھے، بلکہ وہ تاریخ کے طولانی اور عام خط کے سھارے آگے بڑھے اور بڑی طاقتوں ژان ژاک روسو فرا نس کے انقلاب کے مفکر اور اجتماعی قرار داد نامی کتاب کے مولف کو فراموش نھیں کرنا چاہئے۔ اس کے باوجود کہ اس کا شمارجمھوریت اور ڈمو کر اسی کے پیش قدم لوگوں میں ھوتا ھے اور بادشاہ کے بغیر فرانس کا تصور اسے خوفناک لگتا ھے ! نیز اللہ کی حکمت بالغہ کو اصحاب کہف کے قصہ میں بھی فراموش نھیں کرنا چاہئے کہ خدا وند عالم نے اس نڈر، شجاع اور انقلابی گروہ کا ارادہ کیا، لیکن اسی خوفزدہ اور ھراساں حال میں ۳/سوسال کے بعد ظاھر کرتا ھے جب دقیا نوسی سلطنت کے جاہ و حشم اور اقتدار کاکوئی اثر باقی نھیں رہتا۔ ھاں غیبت کی حکمتوں میں سے ایک حکمت عالمی انقلاب کی رھبری کے لئے ثابت اور پائدار یقین کا حصول ھے۔

۲۔ عظیم ترین تاریخی رسالت کا انجام دینا۔ یعنی تمام عالم گیتی پر عدل و انصاف قائم کرنے اور حق و توحید کا پرچم لھرانے کے لئے ایک بے مثال قائدانہ مھارت کی ضرورت ھے اور ولادت سے متعلق ساز و کار کی بے نقص اور کامل شناخت اور سماجی بڑے بڑے واقعات کے اوج، سقوط اور بوسیدگی کی تو سیع میں عظیم تاریخی انقلاب کی احتیاج ھے۔

یہ سلسلہ وار اور ماھرا نہ شناخت تاریخی کتابوںکی سطروں اور ورق گردانی سے حاصل ھونے والی نھیں ھے بلکہ فرد تاریخ کے ساتھ ساتھ بلاواسطہ سماجی انقلاب اور اجتماعی کمیٹیوں کی تبدیلیوں اور مدنی عمارتوں پر عینی شاہد ھو اسے چاہئے کہ واقعات کے رونما ھونے کے لئے عینی آسیب شناسی کا تجربہ کرے۔ اور اصلاح واحیا کی راہ حل تلاش کرے اور واقعہ غیبت ایسا ھی مناسب موقع عالمی اصلاح کرنے والے کے حوالے کرتا ھے۔

۳۔ عالمی نجات دھندہ، حیات بخش وحی سے ماخوذ معین عقیدہ کے تحقق اور ایک معین دین کے قوانین کو اجرا کرنے یعنی عزیز اسلام۔ کو اپنی اصلاحی حرکت کی بنیاد اور دستور العمل قرار دیتا ھے یہ مھم اس بات کا تقاضا کرتی ھے کہ وہ زمانے کے اعتبار سے زلال وحی اور سنھرے دور کے نبوی اور وَلَوی سرچشمہ سے زیادہ سے زیادہ نزدیک ھو، تا کہ اسلامی کی حقیقت سے زیادہ سے زیادہ واقف ھو اور بعد کی فرسودہ آرا کی تہہ اور نئی نئی بدعتوں اور انحرافات سے محفوظ رھے اور بعد کی ثقافتیں اور تہذیبیں اسے اپنے رنگ میں رنگنے نہ پائیں تاکہ قرآن، سنت اور سیرت کو اسی طرح صاف و شفاف صورت میں دریافت کرے جس طرح وہ ھے اور ان دونوں کے پیغام کو عملی جامہ پھنا نے کے لئے قدم اٹھائے۔ حضرت حجت (عجل اللہ تعالیٰ) کی ولادت بارہ سوسال قبل اور آنحضرت کی حیات طیبہ کا طولانی ھونا ایسے امکانات فراھم کرسکتی ھے[25]

(۶) علامہ طباطبائی نے اس سوال کے جواب میں جو کچھ مطالب بیان کئے ھیں اس کا خلاصہ اس نکتہ کی طرف توجہ دلاتا ھے کہ امام معصوم کی شان ہدایت دو طرح کی ھے:

الف۔ ہدایت ارا ئة الطریق (راستہ دکھانے) کے معنی میں۔

ب۔ ایصال الی ا لمطلوب (مقصد تک پھونچا نے) کے معنی میں۔

امام(علیہ السلام) کا ہدایت کے پھلے مرحلہ کو اجرا کرنے میں بذات خود سماج میں حضور اور لوگوں کے ساتھ رفت آمد ضروری ھے لیکن ہدایت کی دوسری قسم کے عملی کرنے میں در حقیقت ایک روحانی رابطہ اور لوگوں کے اعمال کے ساتھ باطنی تعلق برقرار کرنا ھے کہ جس میں لوگوں کے ساتھ جسمانی حضور اور سماجی رابطہ کی ضرورت نھیں ھے۔ لیکن عصر غیبت میں ولی عصر(علیہ السلام) امامت اور ولایت کی اس اھم شان کو استعمال کریں گے۔[26]

اجتماعی، گروھی اور اداری نقطئہ نگاہ سے بھی دوسرے حصہ میں محترم قارئین کے لئے ایک مفصل بحث ھوگی امام کے وجود مبارک کے منتظر مومنین کے معاشرہ کا اجتماعی طورپر ادارہ کرنا ایک ایسا لامتناھی سر چشمہ ھے جس میںروحانی طاقتیں کوٹ کوٹ کر بھری ھوئی ھیں اور وہ حق کے محاذ پر ثابت قدم رہ کر لڑنے والے مجاہدین کے جسم میں استقامت اور پایداری کی روح پھونکتی ھیں جس طرح ایک عظیم سیاسی قائد کا قید میںرھنا یا جلاوطن ھونا اپنے جیسے مجاہدین کے لئے ایک بہترین بھانہ اور عظیم روحانی پشت پناھی ھے چنانچہ آپ کی طبیعی غیبت اس حمایتی رخ سے حادثاتی میدان میں کوئی نقصان نھیں پھونچاتی اور حضرت ابو صالح المہدی کا پس غیبت وجود اپنے چاھنے والوں کے دل میں عظیم جوش و ولولہ پیدا کرتا ھے۔

خود حضرت حجت(علیہ السلام) نے بھی اپنی جانب سے صادر شدہ توقیع اور دےگر جملوں میں اس سوال کا جواب دیا ھے اور اپنے پاکیزہ و مقدس وجود کو غیبت کی صورت میں آفتاب سے تشبیہ دی ھے جب وہ بادل کی آڑ میں ھوجاتا ھے۔ علامہ مجلسی نے اس تشبیہ کی آٹھ وجوھات کی طرف اشارہ کیا ھے اور میرزا نوری قدس سرہ نے ان تمام آٹھ وجوھات کو اپنی کتاب نجم الثاقب میں جو زعیم وقت عالم تشیع آیت اللہ العظمی میرزای شیرازی کی فرمایش پر لکھی گئی تھی۔ نقل کیا ھے جس کا ذکر کرنا فائدہ سے خالی نھیں ھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next