عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



 ØªÛ’سرا سوال: Ú¾Ù… اس طولانی غیبت پر کیوں ا عتقاد رکھیں؟

”مہدویت“ سے انکار کرنے والے کہتے ھیں: کیوں امام مہدی(علیہ السلام) کی عمر کو خارق العادہ شمار کرتے ھوئے اس حدتک اصرار کریں کہ مجبوراً طبیعی قوانین کو معطل کردیں اور اسے ایک ایسے معجزہ سے تعبیر کریں اور کیوں اس فرض کو تسلیم نہ کریں کے ممکن ھے عصر موعود میں بشریت کی رھبری ایک اےسے شخص کے ذمہ قرار دی جائے جو اسی زمانے میں پیدا ھو اور اسی زمانے کے حالات اور شرائط میں زندگی گذارے تا کہ اصلاحی ماموریت انجام دینے کے لئے قیام کرے؟

مذکور بالا مطالب سے باخبر ھونے کے بعد ایسا لگتا ھے کہ ھمارے مخاطبین کے لئے اس سوال کا جواب واضح ھے(۵)

خدا وند سبحان نے بہت سے لوگوں کو اس دنیا اور دےگر عالم میں امام مہدی(علیہ السلام) کی عمر سے زیادہ دن تک زندہ رکھا ھے اور اللہ کی یہ مشیت حکمتوں اور اسرار کی بنیاد پر ھے اور ھم ان میں سے صرف بعض سے واقف ھیں، لیکن ھر حال میں انھیں یقینی طور پر تسلیم کرتے ھیں؛اس وقت کیا فرق پڑتاھے کہ امام مہدی(علیہ السلام) ان میں سے ایک ھوں اور قضیہ مہدویت بھی اسی سننح سے تعلق رکھتا ھو۔ کیونکہ ھم مسلمانوں کا عقیدہ ھے کہ خداوند عالم بیھودہ اور لغو کام انجام نھیں دیتا نیز بہت سارے غیبی امور پر ایمان رکھتے ھیں کہ اس پر عقلی اور نقلی محکم ادلہ و براھین قائم ھیں ایسی صورت میں ایسے غیبی امور کی حکمت اور مصلحت کا نہ جاننا اس اعتقاد کی صحت اور شا ئستگی پر اعتراض وارد نھیں کرتااور اس نظر یہ پر یقین رکھنا کوئی خدشہ کی بات نھیں ھے۔ نیز شرعی احکام اور فقھی فروع اور عبادتوں کے متعلق بھی معاملہ کچھ اسی طرح ھے؛ ممکن ھے کہ ایک دینی حکم کا راز یا ایک قانون الھی کی تشریع کا ہدف ھم پر پوشیدہ ھو لیکن اس کے باوجود ھم اس پر ایمان رکھتے ھوں اور اس کے پابند ھوں اور اس عبودیت کادےگر ادیان، حتی کہ قوانین بشری اور اعتباری اور قرار دادی مقرارت میں بھی مشاہدہ کرتے ھیں۔

اس بنیاد پر اگر جو دلیلیں گذشتہ فصلوں میں امام مہدی(علیہ السلام) پر ایمان رکھنے کی ضرورت کے سلسلے میں حضرت کے (خاص اوصاف پر توجہ کے ساتھ اور یہ کہ آپ امام حسن عسکری(علیہ السلام) کے فرزند ھیں اور آپ کی ولادت اور اپنے والد کے بعد پانچ سال کی عمر میں منصب امامت پر فائز ھونا، آپ کا زندہ ھونا اور طبیعی عمر سے مافوق عمر کا مالک ھونا) ھم نے قائم کی تھیں صحیح و معتبر ھوں تو اس کا نتیجہ آنحضرت کی طولانی غیبت پر ایمان لانا اور اس کا لازمی طور پر دل سے قبول کرنا ھے خواہ اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو درک کریں یا درک نہ کریں، اگرچہ ان میں سے بعض کے درک کرنے کی صلاحیت رکھتے ھیں اور اپنے ناقص علم اور اپنی محدود عقل سے اس عظیم حقیقت کے معمولی اسرار کو تصور کرسکتے ھیں۔

اس لحاظ سے جو مسلمان امام مہدی(علیہ السلام) کی طولانی عمر کے اعجاز اور ان کے وجود مبارک کے فوائد و برکات پر ایمان نہ رکھتا ھو، وہ اپنے عقیدہ پر نظر ثانی کرے اور کثرت سے پائی جانے والی روشن دلیلوں کی روشنی میں اپنی اعتقادی بنیاد کی تعمیر کرے۔ اس لحاظ سے دوسرا فرض قابل قبول نھیں ھے۔ کیونکہ معتبر شرعی دلیلوں میں زمین کے حجت خدا سے خالی ھونے کو، اگرچہ ایک آن کے لئے کیوں نہ ھو محال اور غیر ممکن شمار کیا ھے لہٰذا پیدائش سے آج تک امام مہدی(علیہ السلام) کی حیات کے استمرار پر اعتقاد رکھنے کے سوا کوئی چارہ نھیں ھے، اگرچہ اس امر کی مصلحتوں اور حکمتوں (جس کی طرف متفقہ طور پر مسبوط علمی کتابوں میں اشارہ کیا گیا ھے) سے واقف نہ ھوں۔

چوتھا سوال: امام غائب سے کس طرح فیض حاصل کیا جاسکتا ھے؟

آخری سوال جو ذھنوں کو اپنی سمت متوجہ اور اپنی جانب مشغول کئے ھوئے ھے،یہ ھے: باوجود یکہ امام مہدی(علیہ السلام) امت کے درمیان نھیں ھیں اور لوگوں کی نظروں سے غائب ھیں، تو پھر آپ کا وجود مسلمانوں اور اسلامی معاشرہ کو کیا فائدہ دیتا ھے؟(۶)

جواب: ایک محکم اور متقن اور روشن جواب ھے، سب سے پھلی بات جو شکوک و شبھات دور کرنے کے لئے اس مسئلہ کے بارے میں قابل توجہ ھے، وہ معتبر احادیث کا امام مہدی(علیہ السلام) کے ظھور کی ناگھانی طور پر تصریح کرنا ھے جو اچانک اور بغیر وقت کی تعیین کے ھو گا، اور امام کے ناگھانی قیام کا اثریہ ھے کہ امت مسلمہ کی ھر نسل، کسی بھی زمانے میں اپنے موعود پیشواکے اچانک ظھور کے بارے میں انتظار میں ھے۔ اور اس حالت کا ھونا خودھی امت مسلمہ کے لئے فوائد و برکتوں کا سرچشمہ ھے جن میں سے ھم بعض کی طرف اشارہ کررھے ھیں:

۱۔ انتظار کی حالت،ھر مومن کو دینداری کے سلسلہ میں پائداری اور ثبات قدمی نیز شرعی قوانین کی پابندی کرنے، دوسروں پر ظلم نہ کرنے اور ان کے حقوق غصب نہ کرنے کی دعوت دیتی ھے۔ کیونکہ ایسی حکومت میں جو امام(علیہ السلام) کے ناگھانی قیام کے بعد ان کے ھاتھوں قائم ھوگی، مظلوم کا ظالم سے حق دلایا جائے گا اور عدل و انصاف سارے عالم پر محیط ھوگا اور ظلم وجور کی بساط عالم گیتی سے سمیٹ دی جائے گی۔ یہ خیال نھیں کرنا چاہئے کہ اسلامی شریعت اور قرآنی قانون نے ظلم و زیادتی سے منع کیا ھے اور یہ ھمارے مقصد کے لئے کافی ھے کیونکہ امت کا ایک قوی حکومت کی ضرورت محسوس کرنا اور ایک طاقتور حکومت کا معاشرہ میں قیام ایک قوی روکنے والاعامل شمار ھوتا ھے جو ارتکاب جرائم کا سد باب کرتا ھے صحیح حدیث میں بھی وارد ھوا ھے کہ خدا وند عالم کچھ امور کو بادشاہ کے ذریعہ روکتا ھے لیکن قرآن کے ذریعہ منع نھیں کرتا [15]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next