عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



اس بنا پر صحیح روایات اور عینی شاہدوں Ú©Û’ ذریعہ نسل فاطمہ زھرا(سلام اللہ علیھا)  سے امام حسن عسکری(علیہ السلام) Ú©Û’ فرزند امام مہدی(علیہ السلام)کا وجود ثابت Ú¾Ùˆ گیا کہ آپ Û²ÛµÛµÚ¾  میں پیدا ھوئے ھیں اور عینی شاہدین اس بات کا بار بار اعتراف کرتے ھیں تو پھر ضد، ہٹ دھرمی، عناد اور دشمنی Ú©Û’ سوا انکار کا کوئی راستہ نھیں بچتا۔

فخر رازی کہتا ھے:بعض ڈاکٹروں کا کھنا ھے:

 Ø§ÛŒÚ© آدمی Ú©ÛŒ عمر Û±Û²Û°/سال سے زیادہ تجاوز نھیں کرسکتی۔ یہ آیت اس نظر یہ Ú©Û’ بر خلاف دلالت کرتی Ú¾Û’ اور عقل بھی آیت Ú©Û’ معنی Ùˆ مفھوم Ú©ÛŒ موافقت کرتی Ú¾Û’Û” کیونکہ آدمی Ú©Û’ جسم Ú©ÛŒ ترکیب کا بذاتہ باقی رھنا ممکن Ú¾Û’ ورنہ پائیدار نھیں ھوگا، کیونکہ اگر اس Ú©Û’ تحقق Ú©ÛŒ علت، واجب الوجود Ú¾ÙˆÚ¯ÛŒ تو اس کا دائمی ھونا واضح Ú¾Ùˆ جائے گا اور اگر واجب الوجود Ú©Û’ علاوہ Ú¾Ùˆ تو بھی اس Ú©ÛŒ علت واجب الوجود پر جاکر ختم ھوجائے Ú¯ÛŒ جو کہ باقی اور جادید ھے۔اس لحاظ سے بقا Ø¡ ذاتی طور پر ممکن Ú¾Û’ اور اس کا باقی نہ رھنا یقینا کسی خارجی اسباب Ú©Û’ تحت Ú¾Û’ØŒ لیکن Ú¾Ù… جانتے ھیں کہ ”عارض“ ممکن العدم Ú¾Û’ ورنہ اتنی مدت تک باقی نھیں رھے گا، کیونکہ ”عارض“ اس Ú©ÛŒ رکاوٹ اور مانع جب بھی واجب الوجود ھوگا؛ اس بنا پر معلوم Ú¾Ùˆ جائے گا کہ ان ڈاکٹروں Ú©ÛŒ بات عقل اور نقل دونوں Ú©Û’ خلاف Ú¾Û’[10]

فخررازی آدمی کی غیر عادی عمر کے امکان پر اس طرح دلیل پیش کرتا ھے، چنانچہ حضرت عیسیٰ کی طول عمر کا موضوع مکمل واضح ھو گیا اور یھی دلیل و برھان امام مہدی(علیہ السلام) کی غیر طبیعی طول عمر کے امکان پر ایک عقلانی اور استدلالی دلیل ھوسکتی ھے۔اور صحاح اور غیر صحاح کا اس بات پر اتفاق ھے کہ آخر زمانہ میں دجال کے قتل کرنے کے لئے حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) امام مہدی(علیہ السلام) کی نصرت کے لئے تشریف لائیں گے۔

”امکان عملی“ کے بارے میں بھی یہ سوال پیدا ھوتا ھے: کیا ایک آدمی کی حیات کا عادی میزان سے مافوق ھونا آج کل ھمارے لئے ممکن ھے؟ کیا انسانی تجربے اس سوال کا مثبت جواب دے سکتے ھیں؟

جواب : موجودہ امکانات اور وسائل کے استعمال سے انسانی تجربے نے موجودہ شرائط اور حالات کے اس سلسلہ میں اب تک کوئی کامیابی حاصل نھیں کی ھے، یعنی دانشور ابتک طبیعی اور عادی میزان سے دوگنا، یا تین گنا آدمی کی عمر کو نھیں بڑھا سکے ھیں؛ لیکن یہ بات اس کوثابت نھیں کرتی کہ ایک آدمی طبیعی عمرسے مافوق عمر نھیںپاسکتا۔ کیونکہ یہ ساری تحقیقات خود آدمی نے انجام دی ھیں۔ جب کہ زندہ کرنا، مارنا اور عمر کا طولانی کرنا خدا وند سبحان کے ھاتھ میں ھے اور کسی ایک سرنوشت میں انسان کا دخیل ھونا اور اس کی عمر کا طولانی کرنا وہ بھی تقدیر الھی کے خلاف، ناممکن ھے۔

 Ø§Ù„بتہ،خداوند سبحان اسباب حیات Ú©Ùˆ دوام اس Ú©ÛŒ موت آنے تک فراھم کرسکتا Ú¾Û’ (یعنی خداوند عالم اس Ú©ÛŒ موت آنے تک حیات بڑ ھانے Ú©Û’ اسباب فراھم کرسکتاھے۔ اور علم کا کام صرف ان اسباب کا کشف کرنا Ú¾Û’ØŒ نہ اس سے زیادہ، کیونکہ جدید انسانی اسباب کا ایجاد کرنا انسان Ú©Û’ بس سے باھر اور انسانی علم Ú©ÛŒ تیز رفتاری سے خارج Ú¾Û’ یہ اسباب صرف مسبب الاسباب Ú©Û’ ھاتھ میں ھیں۔

اسی طرح علمی امکان“ کے مفھوم کے بارے میں یہ سوال پیدا ھوتا ھے، آیا علمی نقطہ نظر سے آدمی کی طبیعی عمر سے ما فوق عمر کا ھونا ممکن ھے ؟ اس کے جواب میں کھنا چاہئے:

پھلی بات تو یہ ھے کہ سوال کا علمی جواب مثبت ھے بہت سارے شواہد اور شمارے اس اھم سوال پرصحیح کا نشان لگاتے ھیں ھم اس کے چند نمونے کی طرف اشارہ کر رھے ھیں:

۱۔علمی شواہد اور تجربے طولانی عمر کے ممکن ھونے اور انسان کے مافوق طبیعت عمر کے مالک ھونے کے بارے میں روز افزوں ترقی سے ھمکنار ھیں۔اور ایسے نمونے قانون ”پیری“کو توڑنے میں قاطع اور سنجیدہ ھیں۔مصر کے رسالہ المقتطف کی ۵۹ویں جلد، دوسرا حصہ جو اگست ۱۹۲۱م مطابق۲۶/ذی القعدة الحرام ۱۳۳۹ھ میں شائع ھوا ھے۔ ۲۶ویں صفحہ پر”کرہ ارض پر انسان کی جاودانی“ کے عنوان سے اس طرح سے مطلب ذکر ھوا ھے:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next