عالمی مصلح عقل و دانش کے میزان میں



اگر یہ مان لیں کہ امامتِ اھل بیت کے عوامی مرکز کو اےسی جستجو اور تحقیق کا موقع نھیں ملا! تو پھر حکومت وقت نے واقعیت اور حقیقت کی جستجو کرنے کے لئے کوئی قدم کیوں نھیں اٹھایا؟ باوجود یکہ اگر امت کا کمسن رھبر فکری، علمی اور ضروری پختگی کے اعتبار سے صرف ایک بچہ تھا تو وہ بہت آسانی سے اسے آشکار کر سکتے تھے اور ان کے لئے یہ سب سے اچھا موقع اور کامیاب تر روش ھوتی جس سے ظالم حکومت فائدہ اٹھاتے ھوئے، شیعوں کے رھبر کی عدم لیاقت کا اثبات کرتی اور بچے کی امامت کا مذاق اڑاتی اور اسے بے بنیاد قرار دیتی (لیکن تمام کوششوں کے باوجود نہ کرسکی) واضح ھے کہ اگر ایک چالیس یا پچاس سالہ کو نااھل ثابت کرسکتے ھیں تو جس کے بارے میں احتمال ھے کہ منصب امامت سنبھالنے کی وجہ سے مشکلات اور دشواریوں سے گذرے گا لیکن اسی نااھلی کو ایک کمسن بچہ کے بارے میں ثابت کرنا (خواہ کتنا ھی باھوش کیوں نہ ھو) جو کہ ایسے طاقت فرسا بوجھ کو اٹھانا چاہتا ھے۔ آسان کام ھو گا۔یقیناً یہ راہ دےگر تمام دشوار اور پیچیدہ او ر قتل کرنے والی پر خرچ راھوں سے بہتر اور آسان ھے۔

اس جائزہ کی بنیاد پر، مرکز خلافت کی خا موشی اور سنھرے موقع سے استفادہ نہ کرنے کے لئے صرف قابل قبول تفسیر یہ ھے کہ ان لوگوں نے اس حقیقت تک رسائی حاصل کی تھی کہ”بچپنے کی امامت“ اصلی اور خداوندی ایک واقعہ ھے، نہ کہ من گھڑت، بے بنیاد اور واقعیت سے خالی ھے۔ البتہ! وہ لوگ اس حربہ کو آزمانے نیز شکست فاش کھانے کے بعد اس امر سے واقف ھوئے اور تاریخ نے واضح طور پر اس ناکام کوششوں کو ھمارے لئے بیان کیا ھے، جب کہ شیعہ قیادت میں شکست، تزلزل اور سستی کی کوئی بات ”بچپنے کی امامت“ کے قالب میں نھیں کھی گئی۔ اور کسی واقعہ کو ثبت نھیں کیا ھے کہ امت کا کمسن رھبر ان سے روبرو ھونے کی صورت میں مشکل سے دو چار ھوا ھو اور اس کا حل کرنا اس کی توانائی سے باھر رھا ھو۔ اس طرح سے لوگوں کے اعتماد کو سلب یا کمزور کردیا ھو۔

شیعوں کے مدعا کے معنیٰ یہ ھیں کہ:

 â€Ø¨Ú†Ù¾Ù†Û’ Ú©ÛŒ امامت“ اھل بیت (ع)Ú©Û’ کار نامے میں ایک واقعی حادثہ Ú¾Û’ اور اسے ایک فرض اور ÙˆÚ¾Ù… تصور نھیں کرنا چاہئے اور یہ حقیقت بے بنیاد نھیں Ú¾Û’ یہ واقعیت آسمانی اور الٰھی رھبری Ú©ÛŒ تاریخ میں اپنی مثال بھی رکھتی Ú¾Û’ نمونہ Ú©Û’ طورپر عہدطفولیت میں دینی قیادت Ú©Û’ لئے جناب یحییٰ(علیہ السلام) نبی کا نام لیا جاسکتا Ú¾Û’ کہ خدا وند سبحان ان Ú©Û’ بارے میں فرماتا Ú¾Û’: اے یحییٰ! کتاب خدا Ú©Ùˆ مضبوطی Ú©Û’ ساتھ Ù¾Ú©Ú‘ لو اور (Ú¾Ù… Ù†Û’) بچپنے میں اسے نبوت دی Ú¾Û’[4]

لہٰذا اگر اھل بیت (ع)کی حیات میں بچپنے کی امامت کو ایک موجود حقیقت جانیں (جس کے ادلہ اثبات کے ھم شاہد رھے ھیں) تو عقلی طور پر امام مہدی(علیہ السلام) کی بچپنے کی امامت اور اپنے والد بزرگوار کی جانشینی میں کوئی اعتراض کی گنجائش نھیں رہ جاتی[5]

دوسرا سوال: امام مہدی(علیہ السلام) کی طولانی عمر

سب سے اھم شبہہ جو منکرین نے اس سلسلہ میں ایجاد کیا ھے اور غیبت کے بعد ابتدائی صدیوں سے ابتک اس کی ترویج کرتے چلے آرھے ھیں۔ امام مہدی(علیہ السلام) کی طول عمر کی کیفیت ھے، توضیح:

 Ø§Ú¯Ø± امام مہدی ایک زندہ انسان ھیں جو گیارہ صدیوں سے Ù¾Û’ درپے نسلوں Ú©Û’ Ú¾Ù… عصر رھے ھیں اور زندہ رھے ھیں، تو پھر کس طرح اتنی طولانی اور در ازمدت عمر حاصل Ú©ÛŒ Ú¾Û’ØŸ

بنیادی طورپر یہ کیسے قبول کرنا ممکن ھے کہ وہ طبیعی قوانین کی عمومیت اور زےست شناسی کی وسعت جو کہ پیری اور ناتوانی کا باعث ھوتی ھے اور سرانجام موت سے محفوظ رھے؟(۱)

اس شبہہ کو ایک علمی اور کلی سوال کے عنوان سے اس طرح ذکر کیا جاسکتا ھے: کیا بنیادی طور پر ممکن ھے کہ کوئی انسان صدیوں تک مادی زندگی گذارے؟ اس شبہہ کا جواب دینے کے لئے، سب سے پھلے کلی طورپر ”امکان تداوم حیات“ کے مسئلہ کی تحقیق کریں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next