رسول اللہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ایک سو بیس صفات



عمل اسوقت ظریف اور بہترین قرار پاتا ہے جب شریعت سے اس کی اجازت ہو اور حرمت کے عنوان سے اس سے منع نہ کیا گیا ہو_

لہذا ظلم ، جھوٹ، خیانت ، بر ے اور ناپسندیدہ کام کیلئے لفظ ادب کا استعمال نہیں ہو سکتا دوسری بات یہ ہے کہ عمل اختیاری ہو یعنی اس کو کئی صورتوں میں اپنے اختیار سے انجام دینا ممکن ہو پھر انسان اسے اسی طرح انجام دے کہ مصداق ادب بن جائے _ (۲)

 

دوسرا نکتہ

حسن کے اس معنی میں کہ عمل زندگی کی آبرو کے مطابق ہو، کوئی اختلاف نہیں ہے لیکن اس معنی کے اپنے حقائق سے مطابقت میں بڑے معاشروں مثلاً مختلف اقوام ، ملل ، ادیان اور مذاہب کی نظر میں اسی طرح چھوٹے معاشروں جیسے خاندانوں کی نظر میں بہت ہی مختلف ہے _چونکہ نیک کام کو اچھے کام سے جدا کرنے کے سلسلہ میں لوگوں میں مختلف نظریات ہیں مثلاً بہت سی چیزیں جو ایک قوم کے درمیان آداب میں سے شمار کی جاتی ہیں ، جبکہ دوسری اقوام کے نزدیک ان کو ادب نہیں کہا جاتا اور بہت سے کام ایسے ہیں جو ایک قوم کی نظر میں پسندیدہ ہیں لیکن دوسری قوموں کی نظر میں برے ہیں (۳)

اس دوسرے نکتہ کو نگاہ میں رکھنے کی بعد آداب رسول اکرم (صلی الله علیه و آله وسلم) کی قدر و قیمت اس وجہ سے ہے کہ آپ کی تربیت خدا نے کی ہے اور خدا ہی نے آپ کو ادب کی دولت سے نوازا ہے نیز آپ کے آداب ، زندگی کے حقیقی مقاصد سے ہم آہنگ ہیں اور حسن کے واقعی اور حقیقی مصداق ہیں _

امام جعفر صادق (علیه السلام) نے فرمایا:

"ان اللہ عزوجل ادب نبیہ (صلی الله علیه و آله وسلم) علی محبتہ فقال : انک لعلی خلق عظیم"

خدا نے اپنی محبت و عنایت سے اپنے پیغمبر(صلی الله علیه و آله وسلم) کی تربیت کی ہے اس کے بعد فرمایا ہے کہ: آپ(صلی الله علیه و آله وسلم) خلق عظیم پر فائز ہیں (۴)

آنحضرت (صلی الله علیه و آله وسلم) کے جو آداب بطور یادگار موجود ہیں ان کی رعایت کرنا در حقیقت خدا کے بتائے ہوئے راستے "صراط مستقیم "کو طے کرنا اور کائنات کی سنت جاریہ اور قوانین سے ہم آہنگی ہے _



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 next