حضرت امام عصر(عج) کی معرفت کے دشوارہونے کے باوجود اس کا آسان راستہ



امر الٰہی تخلیق کے مقام پردو طرح سے ظاہر ہوتا ہے:1۔ تدریجی اور معمول کے مطابق 2۔معمول سے ہٹ کر یعنی معجزہ وکرامت کی صورت میں،اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم علیھا السلام کیلئے اپنے امر کو کرامت کی شکل میں وجود دیا کہ جو اس طرح معمول سے ہٹ کر تھا کہ حضرت زکریا ؑحیران رہ گئے:

 {کُلَّمَا دَخَلَ عَلَیہَا زَکَرِیَّا المِحرَابَ وَجَدَ عِندَہَا رِزقًا قَالَ یَامَریَمُ أَنَّی لَکِ ہَذَا قَالَت ہُوَ مِن عِندِ اﷲِ إِنَّ اﷲَ یَرزُقُ Ù…ÙŽÙ† یَشَائُ بِغَیرِ حِسَاب}[37]

:"جب زکریاؑ اس کے حجرہ عبادت میں جاتے تو اس کے پاس طعام موجود پاتے،پوچھا؛اے مریم!یہ (کھانا)تمہارے پاس کہاں سے آتا ہے؟وہ کہتی ہیں:اللہ کے ہاں سے ،بے شک خدا جسے چاہتا ہے بے حساب رزق دیتا ہے" ایسا رزق، غیر طبیعی رزق کا ظہور ہے جو امر {کُن فَیَکُونُ}"ہوجاوہ ہوجاتی ہے" کے ذریعہ وجود میں آتا ہے۔

اولیاء اللہ بھی آیہ {یَہدُونَ بِأَمرِنَا} [38]:"ہمارے حکم کے مطابق رہنمائی کرتے ہیں" کی بنیاد پر، {کُن فَیَکُون}"ہوجا وہ ہوجاتی ہے" کے ذریعہ کام کرتے ہیں، اورمادی مشکلات کی گرہیں کھولنا اور حاجتوں کو پوراکرنا تو ان کی معمولی سی کرامتیں ہیں، اگر کوئی چاہتا ہے کہ جہالت سے علم میں ،ظلم سے عدل میں برے انجام سے نیک عاقبت میں اور جہنم سے جنت میں داخل ہوتو اسے چاہئے کہ اولیاء اللہ کی کہ بالخصوص ولی عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کے مبارک وجود کی طرف رُخ کرے تا کہ ان کے امر {کُن فَیَکُونُ}:"ہو جا وہ ہوجاتی ہے" سے اس کی حاجتیں پوری ہوں اور اس کے دل کو ہدایت ہوجائے۔

ولی عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) سالکین کے ہمسفر

سالک یا راستے کو جانتا ہےاور اس کے نشیب وفراز اور خطرات کو سمجھتا ہے، یا ان سے بے خبر ہوتا ہے، راستے کو نہ جاننے والا انسان، راستے کو طے کرنے اور اپنی منزل مقصود تک پہنچنے کے لئے ہمیشہ ایک ایسے باخبر شخص کی راہنمائی کا محتاج ہے جو خود راستے کو جانتا ہو اور اسے بھی راستے کے نشیب و فراز سے آگاہ کرےاور سلامتی کے ساتھ راستے سے گزار دے اور راستے کے خطرات کو بیان کر کے، سالک کو اس کی تباہیوں سے محفوظ کرے اور آخر کار اس کو منزل مقصود تک پہنچادے۔

انسانیت کا نورانی راستہ اور خداوند عالم کی عبودیت بھی اس قاعدہ سے جدا نہیں ہے،انبیا ءاوراولیاء اللہ راستے سے واقف ہیں اور مخلوقات کی ہدایت کے سفیر ہیں، اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اپنے عظیم پیغمبر کو، عبودیت کے راستے پر چلنے والوں کے ساتھ صبر اور ہمراہ ہونے کا حکم دیا ہے:

{وَاصبِر نَفسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدعُونَ رَبَّہُم بِالغَدَاۃِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجہَہُ}[39]

"اور (اے رسول)اپنے آپ کو ان لوگوں کی معیت میں محدود رکھیں جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اور اس کی خوشنودی چاہتے ہیں"

جو سالک یہ جان لے کہ مہربان راہنما اس کے ساتھ ہے تو وہ بغیر کسی اضطراب کے راستے کو طے کرے گا، لیکن اگر راہنما ایسے مقصد تک نہ پہنچائے اور اسے صرف پتہ بتا کر چھوڑ دے، تو سالک یا مقصد تک نہیں پہنچ سکے گا یاپھر تو اضطراب اوردشواری کے ساتھ منزل مقصود تک پہنچے گا۔

مورد بحث آیت کا مطلب اورمضمون ہمیشہ زندہ ہے، چونکہ آیت پیغمبر ﷺ کی رسالت اور ان کی دینی شخصیت کے بارے میں ہے نہ کہ انکی ظاہری شخصیت اور ان کے عنصری بدن کے متعلق ہے۔ حضرت رسول اکرم ﷺ کے زمانہ ظہور وحضور میں، بشر ان کے ظاہری اورعنصری حضور کی خدمت میں بھی تھا اور ان کے پیغمبری اور دینی حضور کی خدمت میں بھی، لیکن ابھی صرف ان کی رحمت، ولایت اور رسالت کے سایہ تلےزندگی بسر کر رہا ہے، ابھی بھی اگر کوئی صبح وشام اہل ذکر ہو، واجب ومستحب نمازوں اور واجبات اور نوافل میں مشغول رہے اور اس کے کام خدا کے لئے ہوں اور حلال راستے کو اختیار کرے تو یہ راہ چلنے والا سالک اور رسول اکرم ﷺ اورعترت طاہرین علیھم السلام کا ہم سفر ہے نیز حضرت ولی عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کے وجود مبارک کےہمراہ ہے۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next