حضرت امام عصر(عج) کی معرفت کے دشوارہونے کے باوجود اس کا آسان راستہ



"اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کردیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں"

کی تلاوت فرمائی، اس سے امام ؑ کے آئندہ کے اصلاحی پروگرامز کوسمجھا جاسکتا ہے۔

مذکورہ آیت کا مضمون اور پیغام یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کا تکوینی ارادہ ہے کہ کمزور اور بے بس لوگوں کو خود خواہ لوگوں کے ظلم سے نجات دلائے، انہیں زمین کا وارث بنادے اور عدل وانصاف کی حکومت ان کے ہاتھوں سپرد کرے اور اس طرح فرعون صفت لوگوں کو ہمیشہ کے لئے زندگی سے محروم کرتے ہوئے صفحہ ہستی سے مٹا دے۔

اس آیہ کریمہ کا انتخاب کہ جو کمزور قرار دئے گئے لوگوں کا خود خواہ لوگوں سے تقابل کر رہی ہے اور اسی آیت کا امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف)کی زبان مبارک سے تلاوت کا مطلب یہ ہے کہ خدا کا یہ ارادہ حضرتؑ کے شایستہ ہاتھوں سے پورا ہوگا۔

اس کے علاوہ حضرت کا مقصد فقط احکام بیان کرنا نہیں ہوگا، بلکہ آپؑ موسیٰ کلیم اللہؑ کی طرح ظالم کافروں کے ساتھ جنگ بھی کریں گے، جیسا کہ حضرت ولی عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کی حضرت موسیٰ ؑسے دوران حمل اور ولادت میں شباہت اس بات کی گواہ ہے کہ آپ کے اہداف میں اور قیام کی روش میں بھی شباہت ہے۔

بعض اہل معرفت کا قول یہ ہے کہ بنی اسرائیل Ú©Û’ وہ تمام بچے جو فرعون Ú©Û’ ہاتھوں قتل ہوے،حضرت موسیٰ  Ø‘Ú©ÛŒ ولادت Ú©Û’ احتمال Ú©ÛŒ وجہ سے ہوئے تھے، کیونکہ ہر بچہ اس وجہ سے قتل کیا جارہا تھا کہ شاید وہ موسیٰؑ ہو، اس طرح اگر چہ حضرت موسیٰ Ø‘ آخر کار کامیاب ہوئے، فرعونی لوگ دریا Ú©ÛŒ تہہ میں غرق ہوگئے:

{فَأَخَذنَاہُ وَجُنُودَہُ فَنَبَذنَاہُم فِی الیَم} [58]

"تو ہم نے اسے اور اس کے لشکر کو گرفت میں لے لیا اور انہیں دریا میں پھینک دیا"

یہ کامیابی مفت میں حاصل نہیں ہوئی بلکہ بنی اسرائیل کی موقع پرستی، آرام پرستی اور بہانہ بنانے جیسی صفات کے ساتھ ساتھ ایسے نہ تھکنے والے مجاہدمرد اور عورتیں بھی تھیں جنھوں نے صبر، استقامت اور اپنی قربانی دے کر موسیٰ ؑ کی تجلّی اور ظہور کا پیش خیمہ فراہم کیا۔

صد ھزاران طفل سر ببریدہ گشت        تا کلیم اﷲ صاحب دیدہ گشت [59]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next