حضرت امام عصر(عج) کی معرفت کے دشوارہونے کے باوجود اس کا آسان راستہ



ان گذشتہ مطالب سے امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کا وہ فرمان بالکل روشن ہوجائے گا کہ جو ظلم کے مقابلہ میں عدالت کے وسیع نفاذ کیلئےقیام کے آغاز میں، مقام ابراہیم ؑ کے نزدیک نمازقائم کرنے کے بعد، اپنے آپ کو ، پیغمبروں کی نسبت سے بالحضوص ابراہیم خلیل ؑ اور رسول اکرم ﷺ کی نسبت لایق ترین فردکی صورت میں پیش کر رہے ہیں:

“إن القائم  إذا خرج، دخل المسجد الحرام فیستقبل الکعبۃ ویجعل ظھرہ إلی المقام؛ ثمّ یصلّی رکعتین ثمّ یقوم فیقول: یا أیھا الناس! أنا أولی الناس بآدم، یا أیھا الناس! أنا أولی الناس بإبراھیم، یا أیھا الناس! أنا أولی الناس بإسماعیل، یا أیھا الناس! أنا أولی الناس بمحمد ﷺ؛ ثمّ یرفع یدیہ إلی السماء فیدعوا ویتضرع حتی یقع علی وجہہ وہو قولہ (عزّ وجلّ):

جب قائم خروج کریں گے تو مسجد الحرام میں داخل ہونگے اور کعبہ کی طرف رخ کریں گے کہ ان کی پشت مقام ابراہیم کی طرف ہوگی پھر دو رکعت نماز پڑھیں گے پھر کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے اے لوگو!میں سب لوگوں سے آدمؑ کی نسبت زیادہ قریب ہوں، اے لوگو!میں سب لوگوں کی نسبت ابراہیمؑ سے زیادہ قریب ہوں،اے لوگو!میں سب کی نسبت اسماعیلؑ سے زیادہ قریب ہوں،اے لوگو!میں سب کی نسبت محمدﷺسے زیادہ قریب ہوں۔پھر اپنے ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائیں گے اس قدر اللہ تعالی کی بارگاہ میں تضرع کریں گے کہ پیشانی کے بل زمین پر گر جائیں گے"[18]

{أَمَّن یُجِیبُ المُضطَرَّ إِذَا دَعَاہُ وَیَکشِفُ السُّوئَ وَیَجعَلُکُم خُلَفَائَ الأَرضِ أَئِلَہٌ مَعَ اﷲِ قَلِیلاً مَا تَذَکَّرُون}[19]

"کون ہے جو مضطرب کی فریاد سنتا ہے؟جب وہ اسے پکارتا ہے اور اس کی تکلیف دور کرتا ہے اور تمہیں زمین میں جانشین بناتا ہے؟کیا اللہ کے ساتھ کوئی اورمعبود بھی ہے؟تم لوگ بہت کم نصیحت حاصل کرتے ہو۔"

خاتم الاوصیاء، کمالات میں یکتا وارث

امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کی ایک روشن خصوصیت جو دیگر آئمہ علیھم السلام میں پوشیدہ رہی ہے، وہ زمین کا وارث ہونا ہے۔ دیگرتمام آئمہ علیھم السلام ہدایت وارث بھی تھے اور وراثت چھوڑ کر بھی گئے، یعنی مقام امامت انہیں وراثت میں حاصل ہوا تھا اور وراثت کے عنوان سے اسے چھوڑ کر بھی جاتے تھے، لیکن امام عصر (عجل اﷲ تعالیٰ فرجہٗ الشریف) کے بارے میں ایسا نہیں ہے۔

سید حیدر آملیؒ کے لطافت بھرے بیان کے مطابق حضرت خاتم الاولیاء منفرد وارث ہیں یعنی ایسے یکتا وارث ہیں کہ جنہیں گذشتہ الٰہی حجج کے سارے کمالات وراثت میں حاصل ہونے ہیں اور چونکہ ان کے بعد کوئی دوسرا ولی نہیں آئے گا پس نہ ان سے کوئی وراثت لے گا اور نہ وہ کسی کو وارث بنائیں گے۔

مرحوم سید حیدر آملیؒ نے مذکورہ نکتہ قرآن مجید کی اس آیت سے سمجھا ہے:

{وَنُرِیدُ أَن نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ استُضعِفُوا فِی الأَرضِ وَنَجعَلَہُم أَئِمَّۃً وَنَجعَلَہُم الوَارِثِینَ} [20]

"اور ہم یہ ارادہ رکھتے ہیں کہ جنہیں زمین میں بے بس کردیا گیا ہے ہم ان پر احسان کریں گے اور ہم انہیں پیشوا بنائیں اور ہم انہی کو وارث بنائیں"



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 next