عقيدہٴ مهدويت



جیسا کہ منجی موعود حضرت حجة ابن الحسن العسکری (ع) آیات الٰھی میں سے ایک پوشیدہ آیت اور اللہ کی بہت بڑی نشانی ھیں[4]کہ جن کے ظھور کا وعدہ قرآن میں خود خداوند عالم نے دیا ھے[5] تو گزشتہ آیتوں کی بنیاد پر آنحضرت پر ایمان لانے کو تقویٰ کی شرطوں اور کامیابی کا عامل شمار کیا ھے ۔

اسی طرح علامہ طباطبائی (رہ) Ù†Û’ اسی آیت Ú©Û’ روائی بحث Ú©Û’ ذیل میں اس حدیث Ú©Ùˆ امام صادق(ع)سے نقل کیا Ú¾Û’ :عن الصادق(ع) فی قولہ تعالیٰ <الذین یو منون بالغیب >قال :”من آمن بقیام القائم (عج)انہ الحق “۔اقول وہذا المعنی Ù° مروی فی غیر ھٰذہ الروایة“۔امام صادق (ع) Ù†Û’ فرمایا جو شخص امام قائم Ú©Û’ قیام پر ایمان لائے یھی حق Ú¾Û’ اور میں کہتا ھوںدوسری حدیثوں میں یھی معنی مراد ھیں Û”[6]             

امام نے پھر اس آیت <الذین یومنون بالغیب > کے بارے میں فرمایا :اس آیت سے وہ لوگ مراد ھیں جو قیام مھدی پر یقین رکھتے اور اس کو حق جانتے ھیں یھاں تک یہ بات معلوم ھو گئی کہ عقیدہ ٴمھدویت پر ایمان لانا ضروری ھے اور اس کے بعد ضرورت اس بات کی ھے کہ اس پر ایمان رکھنے کی ضرورتوں کی تحقیق کی جا ئے دوسرے لفظوں میں ھمیں یہ دیکھنا ھے کہ کس شخص کو ”مھدی “مانیں ؟تو اس موقع پر ایک بنیا دی سوال یہ پیدا ھو تا ھے کہ کیا حضرت کے نام و نسب کی شنا خت ،اور ان کے قیام کے متعلق ان کے کردار ،مقام ،سیرت اور دیگر معلومات ،مھدی (ع)پر ایمان لانے والوں کی تعداد میں داخل ھو نے کے لئے کا فی ھے ؟

جو شخص معلومات کو حاصل کرنے کی راہ میں صرف اپنی کوشش کے نتیجے میں کوئی توفیق پا گیا ھو تو کیا اس کو عقیدہ مھدی کھا جائیگا؟

اس سوال کا جواب دینے کے لئے ایمان کی ماھیت اور اس کے اجزاء و مقدمات کے بارے میں مختصر طور پر تحقیق کرنی ھو گی اس لئے کہ ”عقیدہ ٴمھدویت “بھی ایمان کا ایک مصداق ھے اور یہ بھی واضح رھے کہ ایمان مطلق کی شنا خت پھر سے ھو سکے ،مجبوراًاور نا گزیرطور پر حضرت ولی عصر (عج)پر ایمان لانے کے مقدمات بھی کشف ھو جائیں گے لیکن اس موت میں تفصیل سے اس مطلب کی وضاحت ممکن نھیں ھے اس لئے اس بات میں اختصار پر اکتفا کرتے ھیں۔

ایمان کی تعریف

ھر چیز کی حقیقت دواعتبار سے انسان کی شخصیت میں رابطہ بر قرار کر سکتی ھے :ادراک اور محبت ؛اگر کسی شی ٴکا وجود خود ھی انسان کے عقل اور ذھن میں آجا ئے ،ایسی صورت میں انسان اس حقیقت کے ساتھ ”عقدالعقل“کا رشتہ بر قرار کرتا ھے لیکن اگر یہ چیز انسان کے دل اور قلب میں اتر جا ئے اور اس میں موثر ثابت ھو اور نرمی و ملائمت کا احساس کرے تو ”عقدالقلب “ کا رابطہ بر قرار ھو تاھے ۔

اگرعقد العقل کے محقق ھونے میں عقل کوئی عکس العمل دکھائے تو انسان کے لئے ”بینش اور دید “ نام کا عنصر حاصل ھو جا تا ھے اور عقد القلب کے متحقق ھو نے اورقلب کی طرف سے عکس العمل ظاھر ھو توانسان کے اندر ایک قسم کا جھکاوٴپیدا ھوجاتاھے ان دو عکس العمل میں ضروری نھیںھے کہ ایک دوسرے میں کسی قسم کا لازمہ پا یا جاتاھو اور آپس میں ایک دوسرے کے ملازم ھوں یعنی بہت سے دید اور بینش ذھن و ادراک میں باقی رہ جاتے ھیں لیکن عطوفت اور محبت کی منزل تک نھیں پھنچتے اور اس کے مقابل اکثر اور بہت سارے احساسات میں کسی قسم کی معرفت اور شناخت بھی نھیں ھوتی ۔

اس میں سے ایمان نہ تو بینش ھے اور نہ تو گرائش ،اور نہ ایمان صرف عقدالعقل ودید کی بنیادوں پر قائم ھے ۔

ایسے میں ایمان انسان کی سرشت اور خلقت میں موجود ھوتی ھے جو ایک درخت کے پودے کے جیسے ذھن انسانی میں لگا دیا گیا ھو جو اپنی جڑوں کو دل کی گھرائیوں میں جگہ بنا لیتا ھے ،ایمان ایک بادبانی کشتی کے جیسے ھے کہ جس کی قطب نمائی سوئیاں معرفت سے بھرے ھو ئے مدار ومحور پر گھومتی رہتی ھیں ۔

استاد شھید مطھری(رہ) اس کے متعلق فرماتے ھیں :ایمان یعنی اعتقاد ،ایمان یعنی فکر کا جذب ھو نا اور کسی فکر کا قبول کرنا کسی بھی فکر کے جذب ھو نے کے دو رکن ھوتے ھیں :اس میں سے ایک رکن علمی اعتبار سے ھے کہ جس کو انسان کی عقل قبول کرتی ھے اور اس کا دوسرا رکن احساس کے لحاظ سے ھو تاھے کہ جس کی طرف انسان کا دل جھکتا ھے۔[7]بلند مقام ،معنوی اور حیوان کے ما فوق انسان کا جھکاوٴجب فکری بنیا دوں پر قائم ھو تو اسی کا نام ”ایمان “ھو جاتاھے ۔[8]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next