عقيدہٴ مهدويت



اس بنا ء پر ان مطالب کو اس طرح جمع کیا جا سکتاھے کہ ایمان دو چیزوں ”کسی بڑی حقیقت کی معرفت “ اور ”اس کی طرف دل کے لگانے“سے پیدا ھو تا ھے ۔

اب ھم نے ایمان کے اجزاء اور اس کے مقدمات کو پہچان لیا اور اس مطلب کو آسانی سے سمجھ لیا کہ امام مھدی (ع)پر ایمان رکھنے کے لئے صرف آنحضرت کی معرفت اور ان سے مربوط امور پر ایمان لانا کافی نھیں ھوگا ،اس لئے کہ جو شخص بقیة اللہ ،مھدی (ع)اور زمانے کی حجت پر ایمان رکھتاھے ، اسے اس کی معرفت حاصل کرنے کے بعد اپنے مولاو مقتدا سے دلی طور پر مانوس ھو کر اس کے ساتھ ھم سفر ھو نا پڑےگا اور یہ سمجھ لے کہ سینکڑوں قافلے اس کے ساتھ ھیں جس کے سا تھ عطوفت و مھربانی کا رابطہ بھی بر قرار کرے اور دل کو اس کی ضمانت میں دے دے ۔[9]

 Ø§Ø³ Ú©Û’ بعد بطور مختصر رسول اعظم(ص) اور ائمہ معصومین(ع) Ú©ÛŒ وصیتوں کا ذکر Ú¾Ùˆ رھا Ú¾Û’ جو امام غائب Ú©Û’ چا Ú¾Ù†Û’ والوں Ú©Û’ متعلق ھیں جس میں ان Ú©ÛŒ ذمہ داریوں کا ذکر Ú¾Ùˆ ا Ú¾Û’ ،حقیقت میںوہ ایسے کار آمدقوانین اور دستور العمل ھیںجو ان عطوفتی رابطے Ú©Ùˆ غیر مستقیم طور پر ایجاد کر تے ھیں وہ روح کا مانوس Ú¾Ùˆ نا اورایک قسم کا قلبی لگاوٴھے :

(۱)آنحضرت کو تحفہ دنیا یعنی ان کی رضا اور اسے اپنی چاہت کے مطابق خرج کرنا۔[10]

(۲)آپ سے تجدید بیعت کرنا ۔[11]

(۳)امام کی فرقت میں رونا اور آنسو بھانا۔ [12]

(۴)امام کی یاد کو زندہ کرنے کی غرض سے مجالس ودعا ووو۔۔۔کا انعقادکرنا۔[13]

(Ûµ)امام Ú©ÛŒ نیا بت میں حج کرنا اور یوسف زھرا(س)Ú©ÛŒ سلامتی Ú©Û’ لئے صدقہ دینا Û”[14]     

(۶)جن کا موں سے امام کو اذیت ھو ان کو ترک کرنا[15]

(۷)قبلہٴ دل سے ملاقات کی دعاکرنا[16]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next