عقيدہٴ مهدويت



تو اب اس مطلب Ú©Û’ بعد یہ کھنا صحیح ھوگاکہ دوسری صورت (یعنی شکست کا اعتراف کرنا )کسی بھی انسان یا کسی امت Ú©Û’ قدم Ú©Ùˆ متزلزل کر Ú©Û’ اسکا کام تمام کر سکتی Ú¾Û’ ،نہ Ù¾Ú¾Ù„ÛŒ صورت Ú©ÛŒ شکست ØŒ ھاں کیوں نھیں اس لئے کہ ”امید “ھی تو سب سے بڑی کامیابی Ú¾Û’ اور” ناامیدی “سے تو شکست ھوتی Ú¾Û’Û”[25]              

  بلکہ یوں کھا جائے کہ خود ”امید “ھی کامیابی اور ”نا امیدی “شکست Ú¾Û’Û”

جیسا کہ شاعر کے چند اشعار ھیں جس کا خلاصہ اور تر جمہ یہ ھے کہ :ایک دن امید نے نا امیدی سے کھا :کہ اگر کوئی تیر اساتھی ھو جائے اور تجھ سے دل لگالے ،ھر سو سے اس کو شکست کا منہ دیکھنا ھو گا ، اس کو جتنی بھی رسوائی نصیب ھوگی وہ تیرے ھی وجہ سے ھوگی اور اس کے آنسووں کا سبب تو ھی ھوگا ،ھر آزاد انسان کا پیر تو باندھ کے رکھے ھوئے ھے اور ھر شخص کوتجھ ھی سے تکلیف پھنچتی ھے ،تیری ناامیدی آنکھوں کو تاریک اور عقل و فکر کو ضائع کر دیتی ھے ،وہ علامت اچھی ھے جو عشق کو دے خوشخبری اور اس دل کا کیا کھنا کہ جس کے اندر نور امید ھو اور امید تو بجلی کی طرح چمکتی ھے اور امید کی بجلی تو جس کے بھی میں چمک جا ئے وھی انسان خوشبخت اور کامیاب ھے۔

امید ایسی زرہ ھے جسے ھر انسان پھنتا ھے اور اس سے اپنے اور اس سے اپنے بدن کو مضبوط بناتا ھے لیکن ”مایوسی “پیر کے تلوے کی مانند ھے کہ اس میں جو بھی پھنس جا ئے وہ شکست کھا جائیگا ،جبران خلیل جبران تمام لوگوں کی زبانی اپنی طرف سے یوں خطاب کرکے کہتے ھیں :اے ”میں “اگر امید وارنہ ھوتا تو دنیا کی آوازیں کبھی بھی نہ سنتا بلکہ ابھی ھی اپنی زندگی کا خاتمہ کر دیتا اور اپنے وجود کو اس دنیا میں کسی پوشیدہ راز سے تبدیل کر لیتا کہ جس کو قبریں چھپا لیتی اگر انسان کے لئے امید کی کرنیں نہ ھو تیں تو انسان کے لئے یہ دنیا کتنی تنگ ھو تی ۔[26]

حضرت مھدی (ع)امیدوں کی کرن

قابل ذکر بات یہ Ú¾Û’ کہ اگر چہ امید وار ھونا اور مایوسی سے بچنا پورے طور پرروشن اور قابل قبول Ú¾Û’ لیکن کسی بھی اصل اور حقیقی چیز سے امید لگا نا ضروری Ú¾Û’ :تا کہ جس سے امید Ú¾Û’ وہ غیر موھوم امر نہ Ú¾Ùˆ امید کسی بھی معاشرے یا فرد Ú©Û’ دل میں اس وقت تک پیدا نھیں Ú¾Ùˆ سکتی جب تک کہ ایک امت         

کے دل میں نور سے محبت نہ ھو جائے،صرف امید کے ھو نے سے کسی کے دل میں امید کی کرن پیدا نھیں ھوتی اور چالیس چراغ تو اسی کے دل میں روشن ھونگے جس کا گذر نور کے شاھراہ سے ھویا خود اسکا رابطہ نورسے ھوتو ایسے شخص کا گذر جو زیت ”مضیی“یا ”قبس“سے ھو اور اپنے وجود کے ذاتی نور کو امید کی شمعوں کے جلانے کی خوشخبری دے تو اس جان ڈالنے والی امید کی گرمی ،سائے میں بیٹھنے والوں کے بے شعور جسم کے برف کو گھلا دے گی کہ جن کے سامنے وہ آفتاب جو بادلوں کے درمیان اپنے چھرے کو چھپائے ھو ئے ھوعدل عدالت اور معاشرہ کو شرافت وفضیلت عطاکرنے والی حکومت قائم کرنے کی تمنا صاحبان فکر کو بہت زیادہ بیچین کئے ھوئے ھے کہ کس طرح اس قیمتی اور نورانی شھر کو دکھادے اور انسانی معاشرہ کو اس کی خبر دیدے یا اس تک پھنچنے کا شوق دلائے ۔

اسی فلاطون نے”اتوپیا“ کا نقشہ تیار کیا ۔

ابونصر فارابی نے مدینہ فاضلہ کا نقشہ بنایا ۔

تو ماس کامپانّلا ماکت نے شھر آفتاب یا سورج کا ملک بنایا ۔

 ØªØ§Ø³ مور Ù†Û’ بہشت زمینی Ú©ÛŒ خبر دی Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next