نبوت صحيحين کی روشنی ميں



”لا تکذبواعلی من کذب فلیلج النا ر“[62]

 â€ لوگو میرے اوپر جھوٹ مت بولو جو میرے اوپر جھوٹ بولے گا وہ جہنم میں جائیگا “ یھی وجہ Ú¾Û’ کہ جب سلیم بن قیس Ù†Û’ حضرت امیر المومنین (ع)  سے لوگوں Ú©Û’ درمیان ایسی رائج احادیث Ú©Û’ صحیح Ùˆ معتبر هونے Ú©Û’ بارے میں سوال کیا کہ آیا یہ حدیثیں واقعاً صحیح ھیں؟ امام (ع)  Ù†Û’ جواب میں ایک عظیم الشان خطبہ دیا، اور اس میں ان حدیثوں Ú©ÛŒ اور ان Ú©Û’ ناقلین Ú©ÛŒ اس طرح قسم بیان فرمائی :

 â€Ø§Ù† فی ایدی الناس حقاً وباطلاًوصدقاً وکذباً وناسخاًومنسوخاً ومحکماً Ùˆ متشابھاً وحفظاً ووھماً ولقد کذب علی رسول اللّٰہ علی عھدہ۔۔“[63]

  ترجمہ : Û” بیشک جو حدیثیں لوگوں Ú©Û’ درمیان رائج ھیں ان میں بعض حق ھیں اور بعض باطل، Ú©Ú†Ú¾ صادق ھیں اور Ú©Ú†Ú¾ کاذب ،کچھ ناسخ ھیں اور Ú©Ú†Ú¾ منسوخ ،کچھ محکم ھیں Ú©Ú†Ú¾ متشابہ، Ú©Ú†Ú¾ حقائق پر مبنی ھیں اور Ú©Ú†Ú¾ ÙˆÚ¾Ù… ،گمان Ùˆ خیال پر، گویا ان میں صحیح Ùˆ غیر صحیح دونوں طرح Ú©ÛŒ حدیثیں مخلوط ھیں، اور یہ اس لئے هوا کہ حدیث Ú¯Ú‘Ú¾Ù†Û’ کا سلسلہ خود زمانہٴ رسالت سے شروع هوچکا تھا چنانچہ با قاعدہ Ú©Ú†Ú¾ افراد حدیثیں Ú¯Ú‘Ú¾ Ú¯Ú‘Ú¾ کر رسول Ú©ÛŒ طرف منسوب کرتے تھے۔!!

  المختصر یہ کہ زمانہٴ رسالت Ú©Û’ بعد روایت سازی Ú©Û’ علل واسباب کا بازار اور زیادہ گرم هوا اور رفتہ رفتہ دور رسالت Ú©ÛŒ دوری اس بات Ú©ÛŒ موجب بنی کہ بے بنیاد اور برہنہ کذب Ú©Û’ علل واسباب بام عروج پر پهونچ گئے ØŒ چنانچہ آنحضرت Ú©ÛŒ نبوت سے Ù¾Ú¾Ù„Û’ Ú©ÛŒ زندگی ØŒ اور آپ Ú©ÛŒ داخلی ØŒ خانوادگی اور آپ Ú©ÛŒ مسلمانوں Ú©Û’ ساتھ معا شرتی زندگی اسی طرح آغاز وحی Ú©ÛŒ کیفیت خلاصہ یہ کہ آپ Ú©ÛŒ زندگی Ú©Û’ تمام جوانب اور جھات Ú©Ùˆ لوگوں Ú©Û’ ذاتی اغراض ومقاصد Ú©Û’ رنگ میں رنگ دیا  گیا  ØŒ ھر شخص اپنے شخصی Ùˆ ذاتی مفاد Ùˆ اغراض Ú©ÛŒ خاطر جب چاہتا حدیث Ú¯Ú‘Ú¾ لیتا،اور اپنے عقیدہ Ú©Û’ اثبات کیلئے اس Ú©Ùˆ رسول Ú©ÛŒ طرف منسوب کر دیتا ،تاکہ اس پر کوئی اعتراض نہ کرسکے! اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رھا یھاں تک کہ معاویہ Ú©Û’ دور ِ حکومت میں اور Ú¾ÛŒ زیادہ یہ سلسلہ بام عروج تک پهونچا، اور یہ کام اس دور میں ایک خطرناک اور اساسی Ø´Ú©Ù„ اختیا ر کر گیا ØŒ کیونکہ معاویہ Ù†Û’ خود Ú¾ÛŒ بہت سے

حدیث گڑھنے کے کارخانے تیار کر رکھے تھے، وہ ان جعلی حدیثوں کے ذریعہ مختلف اھداف و مقاصد رکھتا تھا منجملہ ان کے اپنے غیر اسلامی اور ناشائستہ افعال کی پردہ پوشی اور اپنے بیٹے یزید کی حکومت کا مسلمانوں پرمستحکم کرنا تھا ،چنانچہ جو شخص اس کی خدمت میں حدیث گڑھ کر لاتا اسے وافر انعام و اکرام دے کر حدیث گڑھنے کی اور زیادہ تشویق کرتا تھا، اس طرح اس نے ان حدیث سازی کے کار خانوں سے خوب اچھی طرح فائدہ اٹھایا ، اور وہ ان جھو ٹی اور جعلی حدیثوں کے ذریعہ رسول کی شخصیت کو کمتر کرکے اپنی اور اپنے بیٹے کی سطح میں لاناچاہتا تھا، رسول کے مقام کو لو گوں کے اذھا ن سے اتنا گرادینا چاہتا تھا کہ مسلمان اس کے بعد ےزید جیسے فاسق وفاجر شخص کو خلیفةالمسلمین تسلیم کرنے میں شش و پنج میں مبتلا نہ هوں، یعنی آنحضرت کی شخصیت کو گرا نے کا مقصد ےزید کے لئے حکومت سازی کا راستہ ھموار کرنا تھا، اور دوسری طرف اس کے ذریعہ اپنے مخالفین کو متھم اور ان کو نیچا دکھانا،اور اپنی خاندانی حقارت و ذلت کے ساتھ ساتھ خود کے ظلم وتشدد پر پردہ ڈالنا بھی مقصود تھا،الغرض مذھب فروش راویوں نے معاویہ کی منشاء کے مطابق اس کی اور اس کے خاندان کی شان میں اس قدر حدیثیں گڑھیں کہ ان حدیث کی کثرت سے مسلمانوں کے درمیان یہ تصور پیدا هوگیا کہ حضرت رسالتمآب اور اھل بیت عصمت و طھارت ان لوگوں کے سامنے حقیرھیں۔[64]

 Ø¨Ú¾Ø± کیف معاویہ Ú©ÛŒ طرح اس Ú©Û’ بعد جن حضرات Ú©Û’ ھاتھوں میں زمام حکومت آئی انهوں Ù†Û’ بھی اسی طریقہ Ú©Ùˆ اپنایا ،اور ان لوگوں Ù†Û’ نہ تنھا ان حدیثوں Ú©Ùˆ ضائع هو Ù†Û’ سے بچایا  بلکہ ا Ù† Ú©ÛŒ زیادہ سے زیادہ حفاظت Ú©Û’ ساتھ ساتھ خوب نشر وشاعت بھی کی، کیونکہ ان Ú©ÛŒ حکومت اور سلطنت کا دارو مدار انھیں جعلی حدیثوں پر تھا، چنانچہ یہ جھوٹی اور فرسودہ روایا ت رفتہ رفتہ ایک دوسرے تک منتقل هوتی رھیں، یھاں تک کہ ان Ú©Ùˆ حدیث Ú©ÛŒ کتابوں میں بھی منتقل کردیا  گیا ! ان میں سر فھرست صحیح بخاری اور صحیح مسلم ھیں، اس Ú©Û’ بعد یہ حدیثیں اِن کتابوں Ú©Û’ ذریعہ حدیث ØŒ تاریخ اور تفسیر Ú©ÛŒ دوسری کتابوں میں منتقل هوگئیں، کبھی کبھی ایسی حدیثیں شیعہ کتب میں بھی دیکھی جاتی ھیں ØŒ کیونکہ بعض شیعہ موٴلفین Ù†Û’ بغیر کسی تحقیق وتنقید Ú©Û’ ایسی حدیثوں Ú©Ùˆ بعنوان نقل ِ حدیث ØŒ تاریخ اور تفسیر Ú©ÛŒ کتابوں میں Ù„Ú©Ú¾ مارا Ú¾Û’ (البتہ ان تمام حدیثوں Ú©Ùˆ ھمارے علمائے محققین  Ù†Û’ رد فرمایا  Ú¾Û’ )      

محترم قارئین !ان تفصیلات کے بعد آپ کو یقینا یہ اندازہ هوگیا هوگا کہ کتب احادیث میں کس قدرجعلی روایات موجود هوںگی ،چنانچہ کتب صحیحین میں بھی یقینا ایسی بہت سی روایات موجود ھیں جو حقائق پر مبنی نھیں ھیں، ھم آپ کی معلومات کے لئے اور اپنے دعوی کی تصدیق میں سابقہ انبیاء کے بارے میں پانچ عدد حدیثیں بطور نمونہ صحیح بخاری و مسلم سے نقل کرتے ھیں،اس کے بعد انشاء الله ان حادیث کی تحقیق کریں گے جو صحیحین میں آنحضرت(ص) کے بارے میں وارد هوئی ھیں ۔

Û±Û” حضرت ابراھیم (ع)  کا جھوٹ بولنا اور آپ کامقام شفاعت سے محروم هوجانا!! 

۱۔”۔عن ابی ھریرة Ø› ان النبی(ص) قال لم یکذب ابرا ھیم النبی(ع) قط الا ثلاث کذبات،ا ثنتین فی ذات الله قولہ:<اِنِّیْ سَقِیْمٌ> وقولہ:<بَلْ فَعَلَہُ کَبِیْرُہُمْ ہٰذَا>وواحدة فی شان سارة فانہ قدم ارض جبار، ومعہ سارة ،وکانت احسن الناس، فقال لھا: ان ہٰذا الجبا ر ان یعلم انک امراٴتی ےغلبنی علیکِ، فان سئلک فاخبرےہ انک اختی،فانک اختی فی الاسلام، فانی لا اعلم فی الارض مسلماً غیرکِ وغیری،فلما دخل ارضہ راٴھا بعض اھل الجبار،فاٴتاہ فقال:لقد  قدم ارضک امراٴةلاینبغی لھاان تکون، الالک،فارسل الیھا،فاٴُتِی بھا،فقام ابراھیم الی الصلٰوة،فلمادخلت علیہ لم یتمالک ان بسط یدہ الیھا، فقبضت یدہ  شدیدة  فقال لھا:ادعی الله ان یطلق یدی ولا اضرکِ۔“[65]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next