نبوت صحيحين کی روشنی ميں



۴۔۔حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں :” انا عبد اللّٰہ واخو رسولہ وانا الصدیق الاکبرلایقولھا بعدی اِلَّاکاذبٌ مُفتِرٌ صَلَّیتُ قبلَ الناس بسبع سنین“

 ØªØ±Ø¬Ù…ہ:۔میں بندہٴ خدا ،برادرِ رسول اور صدیقِ اکبر هوں، میرے بعد جو صدیق ِاکبر هونے کا دعویٰ کرے وہ جھوٹا اور افتراء ساز Ú¾Û’ØŒ میں تمام لوگوں سے سات سال Ù¾Ú¾Ù„Û’ سے نماز پڑھا کرتا تھا کا ۔“ اس روایت Ú©Ùˆ ابن ماجہ Ù†Û’ سنن، احمد بن حنبل Ù†Û’ مسند، طبری Ù†Û’ اپنی تاریخ میں نقل کیا Ú¾Û’Û”[32]  اورنسائی Ù†Û’ خصائص میں اس روایت Ú©Ùˆ یوں نقل کیا ھے” عبدت اللّٰہ قبل ان یعبدہ احد  من ہذہ الامة تسع سنین“میں Ù†Û’ خدا Ú©ÛŒ عبادت سب لوگوں سے نو سال Ù¾Ú¾Ù„Û’ شروع کر دی تھی جب کوئی اس امت سے خدا پرست بھی نہ هوا تھا۔(Û³) ابن ابی الحدید کہتے ھیں: حضرت امیر الموٴمنین (ع) کا یہ فرمانا:” میں سات سال Ú©ÛŒ عمر میں تمام لوگوں سے سات سال Ù¾Ú¾Ù„Û’ رسول (ص) Ú©Û’ پیچھے نماز پڑھتا تھا“ اس کا مطلب یہ Ú¾Û’ کہ حضرت امیر علیہ السلام آٹھ سال سے Û±Ûµ/سال تک رسول(ص) Ú©Û’ ساتھ ایک ایسے وفادار شاگرد Ú©ÛŒ حیثیت سے رہتے تھے جو ھمہ وقت اپنے استاد Ú©ÛŒ خدمت میں حاضر رھے، حالانکہ ابھی تک رسالت Ùˆ نبوت Ú©ÛŒ کوئی خبر بھی نہ تھی ،اور اس دوران آنحضرت(ص) دین ابراھیم (ع) Ú©ÛŒ پیروی کرتے تھے، چنانچہ آپ لوگوں سے جدا هوکر عبادت میں مشغول رہتے تھے، اور کبھی آپ چند روز کیلئے کوہ ِ حرا میں عبادت کیلئے Ú†Ù„Û’ جاتے اور حضرت امیر(ع) آپ Ú©Û’ ساتھ رہتے Û”[33]

عرض موٴلف:

”ابن ابی الحدید کی بات کلی طور پر توصحیح ھے جو آپ نے مولا علی (ع) کے خطبے کی شرح میں بیان فرمائی، لیکن یہ کہنا کہ آپ قبل ِ بعثت دین ابراھیم کی پیروی کرتے تھے، یہ مذھب ِ شیعہ کے محققین کے نزدیک صحیح نھیں ھے، کیونکہ رسول(ص) روز اول سے ھی اپنے دین پر عمل کرتے تھے، البتہ آپ چالیس سال تک خدا وند متعال کی جانب سے تبلیغ احکام پر مامور نہ تھے“

قرآن Ú©ÛŒ روشنی میں اخلاق رسو Ù„(ص) 

 Ù‚ارئین کرام!جیساکہ Ú¾Ù… Ù†Û’ آپ Ú©ÛŒ خدمت میں مذکورہ بحث میں یہ بیان کیا کہ حضرت رسالتمآب بچپن Ú¾ÛŒ سے وحی Ùˆ نبوت Ú©Û’ لئے کامل آمادگی رکھتے تھے، اب Ú¾Ù… رسول Ú©ÛŒ اس قبلی  آمادگی کا نتیجہ آپ Ú©Û’ حوالہ کرتے ھیں: اوروہ یہ Ú¾Û’ رسول کا بعد میںاخلاقی فضائل میں کامل ترین مرتبہ پر فائز هونا اور اصول ِ انسانی Ú©Û’ عالی ترین مقام کا حاصل کرنا Ú¾Û’Û”

 Ú†Ù†Ø§Ù†Ú†Û ذیل میں Ú¾Ù… آپ Ú©Û’ خارق العادہ اخلاق پر بعنوان مشتے از خروار روشنی ڈالتے ھیں، تاکہ عظمت رسول خدا(ص) زیادہ سے زیادہ قارئین Ú©Û’ سامنے واضح اور روشن هو جائے، اور آئندہ آنے والی مباحث سمجھنے کیلئے افکاربیشتر آمادگی پیدا کرلیں Û”

 Ù¾Ø±ÙˆØ±Ø¯Ú¯Ø§Ø±Ù عالم Ù†Û’ قرآن کریم میں متعدد آیات Ú©Û’ ذریعہ رسول(ص) اکرم Ú©Û’ معاشرتی اخلاق حسنہ Ú©ÛŒ طرف لوگوں Ú©Ùˆ متوجہ کیا Ú¾Û’ØŒ بعنوان نمونہ Ú¾Ù… صرف تین آیتوں Ú©Ùˆ آپ Ú©ÛŒ خدمت میں پیش کرتے ھیں :

۱۔<لَقَدْ جَاْئَکُمْ رَسُوْلٌ مِنْ اَنفُسِکُمْ عَزِیزٌ عَلَیْہِ مَاعَنِتُّمْ حَرِیصٌعَلَیْکُمْ بِالْمُوْٴمِنِیْنَ رَوُٴوْفٌ رَحِیْمٌ>[34]

ترجمہ:۔ لوگو ! تم ھی میں سے ھمارا ایک رسول تمھارے پاس آچکا جس کی شفقت کی یہ حالت ھے کہ اس پر شاق ھے کہ تم تکلیف اٹھاؤ اور وہ تمھاری بھبودی پر حریص ھے مومنین پر حد درجہ شفیق و مھربان ھے۔

اس آیت سے استفادہ هوتا Ú¾Û’ کہ رسول (ص) مسلمانوں سے بے حد محبت Ùˆ عطوفت رکھتے تھے، چنانچہ اسی شدید محبت کانتیجہ تھا کہ آپ مسلمانوں Ú©ÛŒ پرےشانی اور دشواری پر ھمیشہ رنجیدہ خاطر رہتے  تھے Û”



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 next