حدیث غدیر پر اکثر صحابہ کے اعتراض کا راز



” بنی امیہ بادشاھوں نے نماز سے تکبیر کو ختم کردیا، اور نماز عید فطر اور نماز عید قربان کے خطبوں کو مقدم کردیا یھاں تک کہ یہ مسائل پوری دنیا میں پھیل گئے، لہٰذا یہ کھنا صحیح ھے کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے علاوہ کسی دوسرے کا عمل حجت نھیں ھے۔“[53]

۶۔ ابو الثناء آلوسی

موصوف آیہٴ شریفہ: <۔۔۔وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ وَنُخَوِّفُہُمْ فَمَا یَزِیدُہُمْ إِلاَّ طُغْیَانًا کَبِیرًا>[54] کی تفسیر میں ابن جریر سے، وہ سھل بن سعد سے، وہ ابن ابی حاتم اور ابن مردویہ سے اور ”الدلائل“ میں بیہقی و ابن عساکر سے، وہ سعید بن مسیب سے ، اور روایت ابن ابی حاتم یعلی بن مرّہ سے، اور وہ ابن عمر سے پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے خواب کے بارے میں روایت کرتے ھیں کہ رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے خواب دیکھا کہ بنی امیہ میرے منبر پر بندر کی طرح چڑھ رھے ھیں۔ آپ کو یہ خواب ناگوار لگا اور اسی موقع پر خداوندعالم نے مذکورہ آیت نازل فرمائی۔۔۔[55]

۷۔ ڈاکٹر طہٰ حسین مصری

موصوف اپنی کتاب ”مرآة الاسلام“ میں کہتے ھیں:

”۔۔۔خداوندعالم Ù†Û’ قرآن مجید میں مکہ Ú©ÛŒ عظمت بیان Ú©ÛŒ Ú¾Û’ØŒ اور مدینہ Ú©Ùˆ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ ذریعہ محترم قرار دیا، لیکن بنی امیہ Ù†Û’ مکہ اور مدینہ Ú©ÛŒ حرمت Ú©Ùˆ تاراج کردیا۔ یزید بن معاویہ Ú©Û’ زمانہ سے شروع ھوا جس Ù†Û’ مدینہ Ú©Ùˆ تین مرتبہ مباح اور تاراج کیا Ú¾Û’Û” عبد الملک بن مروان Ù†Û’ بھی مکہ Ú©Ùˆ تاراج کرنے Ú©ÛŒ اجازت حجاج بن یوسف Ú©Ùˆ دی، اور کیا کیا ظلم Ùˆ ستم وھاں انجام نہ دئے؟!  اور یہ سب Ú©Ú†Ú¾ اسی لئے تھا کہ مقدس شھر (Ú©Û’ رھنے والے) ابو سفیان اور بنی مروان Ú©ÛŒ اولاد Ú©Û’ سامنے جھکے رھیں، ابن زیاد Ù†Û’ یزید بن معاویہ Ú©Û’ Ø­Ú©Ù… سے (امام) حسین (علیہ السلام) اور آپ Ú©Û’ بیٹوں اور بھائیوں Ú©Ùˆ قتل کیا اور رسول اللہ(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©ÛŒ بیٹیوں Ú©Ùˆ اسیر کرلیا۔۔۔ مسلمانوں کا مال خلفاء Ú©ÛŒ ذاتی ملکیت بن کر رہ گیا اور جس طرح چاھا اس Ú©Ùˆ خرچ کیا، نہ جس طرح سے خداوندعالم چاہتا تھا۔۔۔۔“[56]

نیز موصوف کا بیان ھے:

 â€ طغیان Ùˆ سر Ú©Ø´ÛŒ مشرق Ùˆ مغرب تک پھیل گئی، زیاد اور اس Ú©ÛŒ اولاد زمین پر فساد پھیلا رھے تھے تاکہ بنی امیہ Ú©ÛŒ حکومت برقرار رہ سکے، اور بنی امیہ Ù†Û’ ان Ú©Û’ لئے ان فسادات Ú©Ùˆ جائز قرار دے دیا تھا، حجاج ØŒ زیاد Ùˆ ابن زیاد Ú©Û’ بعد عراق میں وارد ھوا جس Ù†Û’ عراق Ú©Ùˆ شر Ùˆ فساد اور برائیوں سے بھر دیا۔“[57]

اسی طرح موصوف اپنی کتاب ”الفتنة الکبریٰ“ میں رقمطراز ھیں:

” علی علیہ السلام، رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے سب سے قریبی شخص تھے، وہ آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے تربیت یافتہ اور آپ کی امانتوں کو واپس کرنے میں جانشین تھے۔ وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے عقد اخوت کی بنا پر آنحضرت(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے بھائی تھے۔ وہ داماد پیغمبر اور رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی ذریت کے باپ تھے۔ وہ پیغمبر اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے علمدار اور آپ کے اھل بیت کے درمیان جانشین تھے، اور حدیث نبوی کے مطابق رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نزدیک آپ کا مرتبہ جناب موسیٰ کے نزدیک ھارون کے مرتبہ کی طرح تھا۔ اگر تمام مسلمان یھی سب کچھ کہتے اور انھیں مطالب کی وجہ سے علی علیہ السلام کا انتخاب کرتے تو کبھی بھی حق سے دور نہ ھوتے اور منحرف نہ ھوتے۔۔۔

یہ سب چیزیں حضرت علی علیہ السلام کی خلافت کی نشانیاں تھیں۔۔۔ آپ کی رسول اکرم(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے رشتہ داری، اسلام میں سبقت، مسلمانوں کے درمیان عظمت، جھاد اور جنگ میں مصائب کا برداشت کرنا، اور ایسی سیرت جس میں کسی طرح کا کوئی انحراف اور کجی نھیں تھی، دین و فقاہت میں شدت اور کتاب و سنت کا علم اور رائے میں استحکام وغیرہ وغیرہ یہ تمام صفات آپ کی خلافت کا راستہ ھموار کرنے والی تھیں۔۔۔ بنی ھاشم کو خلافت سے بالکل دور رکھا گیا، قریش نے ان کے ساتھ یہ سلوک کیا، کیونکہ وہ اس بات سے خوف زدہ تھے کہ بنی ھاشم کے پاس ایک جماعت جمع ھوجائے گی، وہ خلافت کو اپنے قبیلہ کے علاوہ کسی دوسرے قبیلہ میں نھیں جانے دینا چاہتے تھے ۔“[58]

نیز موصوف کہتے ھیں:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 next