ثقلین کے آئینے میں موعود کی علامت



۲۔شیعہ علماء اور محدثین،

شاید کھا جاسکتا ھے! ان شیعہ مفسرین، محدثین اور بزرگوں کے اسماء کا شمار کرنا، جنھوں نے امام مہدی﷼ کے بارے میں احادیث نقل کی ھیں، بہت مناسب نھیں ھے؛ کیوں کہ حضرت کے ظھور پر بطور مطلق ایمان لانا ان کے نزدیک شیعوں کے اعتقادی اصول میں شمار ھوتا ھے، اس لحاظ سے ان کے اسماء ذکر نھیں کریں گے۔

(ب) صحابہ میں سے جنھوں نے احادیث المہدی کی روایت کی ھے: جن اصحاب نے احادیث المہدی﷼ کو رسول(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے روایت کی ھے یا وہ لوگ جن کی حدیثیں اصحاب پر موقوف ھیں کہ نتیجتاً رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے نقل شدہ ان کی روایتیں مرفوعہ روایت کا حکم رکھتی ھیں بہت زیادہ ھیں کیوںکہ اس صورت کے علاوہ اپنے ذاتی اجتھاد پر عمل کیا ھوگا اور وہ اس طرح کے قضیہ میں ناقابل تصور ھے چنانچہ ایسی حدیثوں کے روایت کرنے سے اگر ان کا دسواں حصہ بھی ثابت ھوجائے تو ان احادیث کا تواتر بلا تردید ثابت ھوجائے گا وہ بھی صرف اس کے مطابق جو اھلسنت کے ماخذمیںمذکور ھے،وہ درج ذیل ھیں :

فاطمہ الزھرا(سلام اللہ علیھا)  م۱۱ھ، معاذابن جبل م۱۸ھ، قتادہ ابن نعمان م۲۳ھ، عمر ابن خطاب م۲۳ھ، ابوذر غفاری م۳۲ھ، عباس ابن عبدالمطلب م۳۲ھ، عبدالرحمان ابن عوف م۳۲ھ، عثمان ابن عفان م۳۵ھ، سلمان فارسی م۳۶ھ، طلحہ ابن عبداللہ م۳۶ھ، حذیفہ ابن یمانی م۳۶ھ، عمار ابن یاسر، شھادت ۳۷ھ، امام علی(علیہ السلام)،شھادت۴۰ھ، زید ابن ثابت م۴۵ھ، تمیم داری م۵۰ھ، امام حسن ابن علی(ع)شھادت۵۰ھ، عبدالرحمان ابن سمرہ م۵۰ھ، مجمع ابن جاریہ م۵۰ھ، عمران ابن حصین م۵۲ھ، ابوایوب انصاری م۵۲ھ، ثوبان غلام رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)م۵۴ھ، عائشہ م۵۸ھ، ابوھریرہ م۵۹ھ، امام حسین(علیہ السلام) رسول اکرم(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)Ú©Û’ نواسے جو۶۱ھ  میں شھید ھوئے،علقمہ ابن قیس ابن عبداللہ م۶۲ھ، ام سلمہ م۶۲ھ، عبداللہ ابن عمر م۶۵ھ، عبداللہ ابن عمروعاص م۶۵ھ، عبداللہ ابن عباس م۶۸ھ،زید ابن ارقم م۶۸ھ، عوف ابن مالک م۷۳ھ، ابوسعید خدری م۷۴ھ، جابر ابن سمرہ م۷۴ھ، جابر ابن عبداللہ انصاری م۷۸ھ، عبداللہ ابن جعفر طیار م۸۰ھ، ابو امامہ باھلی م۸۱ھ، بشرابن منذر ابن جارود م۸۳ھ، ان Ú©Û’ بارے میں اختلاف پایا جاتا Ú¾Û’ اور بعض کہتے ھیں کہ راوی ان Ú©Û’ جدجارود ابن عمرو م۲۰ھھیں، عبداللہ ابن حارث ابن جزء زیبدی م۸۶ھ، سھل ابن سعد ساعدی م۹۱ھ، انس ابن مالک م۹۳ھ، ابوالطفیل م۱۰۰ھ، اور بعض Ù†Û’ دوسری تاریخ ذکر Ú©ÛŒ ھیں) ان Ú©Û’ علاوہ جن Ú©ÛŒ معین تاریخ وفات ھمیں نھیں مل پائی Ú¾Û’ وہ یہ ھیں ام حبیبہ،ابوجحاف،ابو سلمی چوپانِ رسول(صلی اللہ علیہ Ùˆ آلہ Ùˆ سلم)ØŒ ابولیلی، ابووائل،حذیفہ ابن اسید، حرث ابن ربیع، ابو قتادہ انصاری، زرّ ابن عبداللہ، زرارہ ابن عبداللہ، عبداللہ ابن ابو اوفی، علاء ابن بشرمزنی، علی ھلالی، قرہ ابن ایاس اور عمرو ابن مرہ جھنی۔

ج۔ اھلسنت کی کتابوں میں احادیث المہدی کے کچھ طر ق؛ جامعة الازھرمصر کے استاد سید احمد بن محمد بن صدیق، ابو الفیض غماری حسنی شافعی مغربی (م۱۳۸۰) نے اپنی گرا نقدر اور تحقیقی کتاب ابراز الوھم المکنون من کلام ابن خلدون میں کیا خوب حق مطلب ادا کیا ھے اور کس قدر اچھے انداز میں عظیم حقیقت کی تشریح کی ھے انھوں نے اس کتاب میں، احادیث المہدی کے متواتر ھونے کے بارے میں اس طرح سے اثبات کیا ھے کہ ان سے پھلے کسی نے ایسی ذمہ داری نھیں نبھائی ھے۔ انھوں نے یہ کتاب ابن خلدون کی تضعیفات اور اشکالات کو باطل کرنے کی غرض سے لکھی ھے کہ جو ابو الفیض کے بعض ھم عصروں جیسے احمد امین و فرید و جدی ا ور اس جیسے لوگوں کے لئے ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ھے۔

منا سب ھے کہ ایک سرسری مطالعہ کریں اور ان طرق کے سلسلہ میں جو انھوں نے اپنی کتاب میں ذکر کئے ھیں اور اسے اس طرح سے پھیلایا ھے کہ اھلسنت کی کتابوں میں احادیث المہدی کی اسناد کو تلاش کرنے ؛ میں ان کی علمی توانائی پر دال اور گواہ ھے۔انھوں نے طبقہ صحابہ سے آغاز کیا ھے، پھر تابعین اور تبع تابعین تک پھونچا ھے اور اپنی اس کو شش کوایسے لوگوں پر تمام کیا ھے جنھوں نے مذکورہ احادیث کو ان کے محدثین سے حکایت کی ھے۔

ابوالفیض کہتا ھے:

عادی اور طبیعی طریقہ حکم کرتا ھے کہ ھم خیال و معاون ایک جماعت کا جن کی تعداد ھر طبقے میں ۳۰ افراد تک پھونچتی ھے دروغ، جعل اور فریب پر ایک ھونا محال ھے؛ بالخصوص یہ کہ گذشتہ تعداد ان تحقیقوں کا نتیجہ ھے جواب تک عملی ھو چکی ھیں

مہدی موعود کے بارے میں وارد احادیث اس جماعت کے طریقے سے جن کے اسماء درج ذیل مصنف نے حاصل کئے ھیں:

(ابو سعید خدری، عبداللہ بن مسعود، علی بن ابی طالب(علیہ السلام)، ام سلمہ، ثوبان، عبد اللہ بن جزء بن حارث زبیدی، ابوھریرہ، انس بن مالک، جابر بن عبد اللہ انصاری، قرة بن ایاس مزنی، ابو عباس، ام حبیبہ، ابوامامة، عبد اللہ بن عمرو عاص، عمار یاسر، عباس بن عبد المطلب، حسین بن علی(علیہ السلام)، تمیم داری، عبد الر حمن بن عوف، عبد اللہ بن عمر بن حطاب، طلحة، علی ھلالی، عمران بن حصین، عمروبن مرة جھنی، معاذبن جبل و مرسلہ ء شھر بن حوشب؛ کہ البتہ اس کی خبر مرفوعہ ھے، نہ موقوفہ ا ور مقطوعہ؛ اگرچہ موقوفہ ا ور مقطوعہ دونوں ھی طرح کی روایات اس طرح کے باب میں مرفوعہ ھی شمار کی جاتی ھے۔ چنانچہ انھیں بھی ھم نے شمار کر دیا، ایک بڑی عدد کو تشکیل دیتی ھیںلیکن مرفوعہ روایات اتنی ھی مقدار میں کافی ھے [21]یہ حصہ سید ابو الفیض غماری کی عبارت سے ھم نے ذکر کیا ھے تاکہ معلوم ھو کہ صحابہ کی جو تعداد اس نے شمار کی ھے ان لوگوں کی تعداد سے کھیں زیادہ ھے جسے اس نے ذکر نھیں کیا ھے، کیونکہ اس نے صرف ۲۶صحابہ کا نام ذکر کیا ھے جب کہ دیگر ۳۰ افراد کو حذف کردیا ھے اور وہ درج ذیل ھیں:

صدیقہ کبریٰ فاطمہ زھرا (سلام اللہ علیھا) ،ابو ایوب انصاری، ابو جحاف، ابوذر غفاری،ابو سلمیٰ حضرت رسول خدا(صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بھیڑیں چرانے والا، ابو وائل،جابر ابن سمرہ، جارود ابن منذر عبدی، حذیفہ ابن اسید، حذیفہ ابن یمان،حرث ابن ربیع،امام حسن مجتبیٰ سبط اکبر(علیہ السلام)،زرابن عبداللہ، زرارہ ابن عبداللہ، زید ابن ارقم، زید ابن ثابت، سعد ابن مالک، سلمان فارسی، سھل ابن سعد ساعدی،عبدالرحمان ابن سمرہ،عبداللہ ابن ابو اوفیٰ، عبداللہ ابن جعفر طیار، عثمان ابن عفان، علاء ابن بشیر،علقمہ ابن قیس ابن عبداللہ، عمر ابن خطاب، عوف ابن مالک،مجمع ابن جاریہ، حفصہ بنت عمر،اور عایشٴہ[22]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 next