خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



اس میں سے دو قسمیں خدا کے سلسلے میں جائز نھیں لیکن دوسری دو قسمیں اس کی ذات کے لئے ثابت ھیں، اور وہ دو قسمیں جو جائز نھیںھیں یہ ھیں:

Û±)  وہ ایک جو دعدد میں آتا Ú¾Û’ (جیسے  ۱، ۲، Û³Û”Û”Û”) اس Ú©ÛŒ واحدانیت، عددی وحدانیت نھیں ھے،کیونکہ اپنا ثانی رکھنے والے واحد، اور اپنا ثانی نہ رکھنے والے واحد پر بطور یکساں واحد کا اطلاق نھیں کیا جاسکتا،  <لَقَدْ کَفَرَ الَّذِینَ قَالُوا اِنَّ اللهَ ثَالِثُ ثَلاَثَةٍ> (سورہ مائدہ آیت ۷۳، ”بے Ø´Ú© وہ لوگ کافر هوگئے جنھوں کھا :اللہ ان تین میں سے تیسرا ھے“۔

Û²)  ایسا واحد جو کسی جنس Ú©ÛŒ ایک قسم پر اطلاق هوتا هو، مثلاً کھا جائے: ”وہ لوگوں میں سے ایک ھے“، ایسا واحد جو کسی نوع Ùˆ  صنف Ú©ÛŒ ایک فرد پر اطلاق هوتا Ú¾Û’ØŒ خداوندعالم پر اطلاق نھیں هوتا کیونکہ اس اطلاق Ùˆ ا ستعمال میں تشبیہ پائی جاتی Ú¾Û’ØŒ حالانکہ خدا کوئی شبیہ نھیں رکھتا۔

لیکن وہ قسمیں جو خدا کی ذات پر اطلاق کرنا جائز ھے:

۱)وہ ایسا واحد ھے جس کی کوئی شبیہ نھیں ھے۔

Û²)   خداوندعالم ایسا واحد جس Ú©ÛŒ تقسیم عقل Ùˆ ÙˆÚ¾Ù… میں بھی ممکن نھیں Ú¾Û’ØŒ (بحار الانوار، ج۳، ص Û²Û°Û¶Û”)

تو حید ذات و صفات:یعنی خدا کے صفات ذاتی ھیں، جیسے حیات، علم، قدرت عین ذات ھیں، و گرنہ ذات و صفت جدا جدا هونا تجزیہ و ترکیب کا باعث هوگا، وہ جو اجزاء سے مرّکب هوگا وہ جو اجزاء سے مرکب هو وہ اپنے اجزا کا محتاج هوگا، (اور محتاج خدا نھیں هوسکتا)

اسی طرح اگر صفات کو ذات سے جدا مان لیں تو لازم یہ آتا ھے وہ مرتبہ ذات میں فاقد صفات کمال هو، اور اس کی ذات ان صفات کے امکان کی جہت پائی جائے، بلکہ خود ذات کا ممکن هونا لازم آئے گا، کیونکہ جو ذات صفات کمال سے خالی هو اور امکان صفات کی حامل هو وہ ایسی ذات کی محتاج ھے جو غنی بالذات هو۔

حضرت امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ھیں: خدا کی سب سے پھلی عبادت اس کی معرفت حاصل کرنا ھے۔اور اصل معرفت خدا کی وحدانیت کا اقرار ھے، اور نظام توحید یہ ھے کہ اس کی صفات سے صفات کی نفی و انکار کرنا ھے، (زائد بر ذات) اس لئے کہ عقل گواھی دیتی ھے کہ ھر صفت اور موصوف مخلوق هوتے ھیں، اور ھر مخلوق کا وجود اس بات پر گواہ ھے کہ اس کا کوئی خالق ھے، جو نہ صفت ھے اور نہ موصوف۔ (بحار الانوار، ج۵۴، ص ۴۳)

توحید در الوھیت:



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next