خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



Ú†Ú¾Ù¹Û’ امام   (ع) Ù†Û’ ابن ابی العوجا Ø¡ سے فرمایا : 

((ویلک وکیف احتجب عنک من اٴراک قدرتہ في نفسک؟ نشؤک ولم تکن Ùˆ کبرک بعد صغرک Ùˆ قوتک بعد ضعفک Ùˆ ضعفک بعد قوتک Ùˆ سقمک بعد صحتک Ùˆ صحتک بعد سقمک Ùˆ رضاک بعد غضبک Ùˆ غضبک بعد رضاک Ùˆ حزنک بعد فرحک، Ùˆ فرحک بعد حزنک Ùˆ حبک بعد بغضک Ùˆ بغضک بعد حبک Ùˆ عزمک بعد إبائک Ùˆ إباوٴک بعد عزمک Ùˆ شہوتک بعد کراہتک وکراہتک بعد شہوتک Ùˆ رغبتک بعد رھبتک Ùˆ رھبتک بعد رغبتک ورجائک بعد یاٴسک Ùˆ یاٴسک بعد رجائک Ùˆ خاطرک بما لم یکن فی ÙˆÚ¾Ù…Ú© Ùˆ عزوب ما اٴنت معتقدہ عن Ø°Ú¾Ù†Ú©  Ùˆ مازال یعد علی قدرتہ التی فی نفسی التی لا اٴدفعھا حتی ظننت اٴنہ سیظھر فیما بیني وبینہ))[45]

توحید

توحید سے مراد ایسے خداوند عالم پر اعتقاد ھے جو یکتا ھے اور اجزاء وصفات کی ترکیب سے مبرا ھے، اس لئے کہ ھر مرکب، وجود کو اجزاء اور ان اجزاء کو ترکیب دینے والے کا محتاج ھے اور محال ھے کہ جو محتاج هو وہ اپنے آپ یا کسی غیر کو وجود عطا کرسکے۔ خداوندمتعال کی ذات وصفات میں اس کا کوئی شریک نھیں ھے۔[46]

اس سے متعلق بعض دلائل کی طرف اشارہ کرتے ھیں :

۱۔تعدد الٰہ سے خداوند متعال میں اشتراک ضروری قرار پاتا ھے اس لئے کہ دونوں خدا ھیں، اور اسی طرح دونوں میں نقطہٴ امتیاز کی ضرورت پیش آتی ھے تاکہ دوگانگی تحقق پیدا کرے اور وہ مرکب جو بعض نکات اشتراک اور بعض نکات امتیاز سے مل کر بنا هو، ممکن ومحتاج ھے۔

۲۔تعدد الہ کا کسی نقطہٴ امتیاز کے بغیر هونا محال ھے اور امتیاز، فقدانِ کمال کا سبب ھے۔ فاقدِ کمال محتاج هوتا ھے اور سلسلہٴِ احتیاج کا ایک ایسے نکتے پر جاکر ختم هونا ضروری ھے جو ھر اعتبار سے غنی بالذات هو، ورنہ محال ھے کہ جو خود وجود کا محتاج وضرور ت مند هو کسی دوسرے کو وجود عطا کرسکے۔

۳۔خدا ایسا موجود Ú¾Û’ جس Ú©Û’ لئے کسی قسم Ú©ÛŒ کوئی حد مقرر نھیں کیونکہ ھر محدود، دو چیزوں سے مل کر بنا Ú¾Û’ ØŒ ایک اس کا وجوداور دوسرے اس Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ حد اور کسی بھی وجود Ú©ÛŒ حد اس وجود میں فقدان اور اس Ú©Û’ منزلِ کمال تک نہ پہچنے Ú©ÛŒ دلیل Ú¾Û’ اور یہ ترکیب، اقسامِ ترکیب Ú©ÛŒ بد ترین قسم Ú¾Û’ØŒ کیونکہ ترکیب Ú©ÛŒ باقی اقسام میں یا تو دو وجودوں Ú©Û’ درمیان ترکیب Ú¾Û’ یا بود ونمود Ú©Û’ درمیان ترکیب Ú¾Û’ØŒ جب کہ ترکیب Ú©ÛŒ اس قسم میں بود ونبود Ú©Û’ درمیان ترکیب Ú¾Û’!!  جب کہ خد ا Ú©Û’ حق میں ھر قسم Ú©ÛŒ ترکیب محال ھے۔وہ ایسا واحد وجود Ú¾Û’ جس Ú©Û’ لئے کسی ثانی کا تصور نھیں، کیونکہ ثانی کا تصور اس Ú©Û’ لئے محدودیت اور متناھی هونے کا Ø­Ú©Ù… رکھتا Ú¾Û’ØŒ لہٰذا وہ ایسا یکتاھے کہ جس Ú©Û’ لئے کوئی ثانی نہ قابل تحقق Ú¾Û’ اور نہ  Ú¾ÛŒ قابل تصور۔

۴۔ کائنات کے ھر جزء وکل میں وحدتِ نظم برقرار هونے سے وحدت ناظم ثابت هو جاتی ھے، کیونکہ جزئیاتِ انواع کائنات میں موجود تمام اجزاء کے ھر ھر جزء میںموجود نظم وترکیب اور پوری کائنات کے آپس کے ارتباط کے تفصیلی مطالعے سے یہ بات واضح هوجاتی ھے کہ جزء و کل سب ایک ھی علیم ،قدیر اورحکیم خالق کی مخلوق ھیں۔ جیسا کہ ایک درخت کے اجزاء کی ترکیب، ایک حیوان کے اعضاء و قوتوں کی ترکیب اور ان کا ایک دوسرے نیز چاند اور سورج سے ارتباط، اسی طرح منظومہٴ شمسی کا دوسرے منظومات اور کہکشاؤں سے ارتباط، ان سب کے خالق کی وحدانیت کامنہ بولتا ثبوت ھیں۔ایٹم کے مرکزی حصے اور اس کے مدار کے گردگردش کرنے والے اجزاء سے لے کر سورج و منظومہٴِ شمسی کے سیارات اور کہکشاؤں تک، سب اس بات کی علامت ھیں کہ ایٹم،سورج اور کہکشاوٴں کا خالق ایک ھی ھے <و َھُوْ الَّذِي فِي السَّمَاءِ اٴِلٰہٌ وَّ فِی اْلاٴَرْضِ إِلٰہٌ وَّ ھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْم>[47]<یَا اٴَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِي خَلَقَکُمْ وَالَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَةالَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ اْلاٴَرْضَ فِرَاشًا وَّالسَّمَاءَ بِنَاءً وَّ اٴَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَخْرَجَ بِہ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلاَ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اٴَنْدَادًا وَّ اٴَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ>[48]

ÛµÛ”Ú†Ú¾Ù¹Û’ امام   (ع) سے سوال کیا گیا:  صانع وخالقِ کائنات کا ایک سے زیادہ هونا کیوں ممکن نھیں Ú¾Û’ ØŸ آپ   (ع) Ù†Û’ فرمایا : اگر دعوٰی کرو کہ دو ھیں تو ان Ú©Û’ درمیان شگاف کا هونا ضروری Ú¾Û’ تاکہ دو بن سکیں، پس یہ شگاف تیسرا هوا اور اگر تین هو گئے تو پھر ان Ú©Û’ درمیان دو شگافوں کا هونا ضروری Ú¾Û’ تاکہ تین محقق هوسکیں،بس یہ تین پانچ هوجائیں Ú¯Û’ او راس طرح عدد بے نھایت اعداد تک بڑھتا چلا جائے گا۔ نتیجہ یہ هوا کہ اگر خدا ایک سے زیادہ هوئے تو اعداد میں خداؤں Ú©ÛŒ نا متناھی تعداد کا هونا ضروری Ú¾Û’Û”[49]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next