خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



یہ علم وحکمت کے آثار کا سادہ ترین نمونہ ھے جو کسی دقّت نظر کا محتاج نھیں <وَفِیْ اٴَنْفُسِکُمْ اٴَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ>[18]تو انسانی خلقت کے ان عمیق ترین اسرار کے بارے میں کیا کہئے گا کہ جن کی تہہ تک رسائی کے لئے انسان کو اپنے علم کو جدید ترین آلات کی مدد سے کام میں لاتے هوئے،سرجری اور اعضائے انسانی کی خصوصیات و کردار جیسے شعبوں میں اعلیٰ مھارت بھی حاصل کرنی پڑے۔ <اٴَوَلَمْ یَتَفَکَّرُوْا فِیْ اٴَنْفُسِہِمْ>[19]

جی ھاں، اتنی زیادہ علمی کاوشوں کے بعد اب تک جس موجود کی جلد کی حکمت ھی واضح نہ هوسکی هو، اس کے باطن اور مغز میں کیسے عظیم اسرار پنھاں ھیں، جیسے ملائمات کو جذب کرنے والی شہوت اور ان کی حفاظت ونا ملائمات کو دفع کرنے والے غضب سے لے کر، ان دو کے عملی تعادل کے لئے عقل اور نظری تعادل کے لئے حواس کی ھدایت سے سرفراز کیا گیا ھے<وَ إِنْ تَعُدُّّوْا نِعْمَةَ اللّٰہِ لاَ تُحْصُوْہَا>[20]

حکمت کی ایسی کتاب کو علم وقدرت کے کون سے قلم سے پانی کے ایک قطرے پر لکھاگیاھے؟!<فَلْیَنْظُرِ اْلإِنْسَانُ مِمَّ خُلِقَةخُلِقَ مِنْ مَّاءٍ دَافِقٍ>[21] <یَخْلُقُکُمْ فِی بُطُوْنِ اٴُمَّھَاتِکُمْ خَلْقًا مِّنْ بَعْدِ خَلْقٍ فِی ظُلُمَاتٍ ٍثَلاَثٍ>[22]

یہ کیسا علم اور کیسی قدرت وحکمت ھے کہ جس نے غلیظ وپست پانی میں تیرنے والے خوردبینی حیوان سے ایسا انسان خلق کیا ھے جس کی مشعلِ ادراک، اعماقِ آفاق وانفس کی جستجو کرے <اِقْرَاٴْ وَرَبُّکَ اْلاَکْرَمَةالَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِةعَلَّمَ اْلإِنْسَانَ مَالَمْ یَعْلَمْ[23]اور زمین وآسمان کو اپنی قدرت وجولان ِفکر کا میدان قرار دے؟ <اٴَ لَمْ تَرَوا اٴَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَا فِی السَّمَاوَاتِ وَمَا فِی اْلاٴَرْضِ وَ اٴَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہ ظَاہِرَةً وَّبَاطِنَةً وَّمِنَ النَّاسِ مَنْ یُجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّلاَ ھُدًی وَّلاَ کِتَابٍ مُّنِیْرٍ>[24]

اس علم وقدرت اور رحمت وحکمت کے سامنے انسان، خود پروردگار عالم کے اس فرمان کے علاوہ کیا کہہ سکتا ھے کہ <فَتَبَارَکَ اللّٰہُ اٴَحْسَنُ الْخَالِقِیْنَ>[25] اور اس کے سوا کیا کر سکتا ھے کہ خاک پر گر کر اس کے آستانہٴِ جلال پر ماتھا رگڑ کر کھے:((سبحن ربی الاٴعلی وبحمدہ))

اس آیت کریمہ <سَنُرِیْھِمْ آیَاتِنَا فِی اْلآفَاقِ وَفِی اٴَنْفُسِہِمْ حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّہُ الْحَقُّ>[26]Ú©Û’ مطابق، آفاقِ جھاں میں بھی دقّت ِ نظر ضروری Ú¾Û’ کہ لاکھوں سورج،چاند وستارے جن میں سے بعض کا نور ہزاروں نوری سالوںکے بعد زمین تک پھنچتا Ú¾Û’ØŒ جب کہ نور ھر سیکنڈ میں تقریبا تین لاکھ کلو میٹر کا فاصلہ Ø·Û’ کرتا Ú¾Û’ØŒ اور جن میں سے بعض کا حجم،زمین Ú©Û’ حجم سے کروڑوں گنا زیادہ Ú¾Û’ØŒ ان سب Ú©Û’ درمیان اتنا گھرا انتظام اتنے دقیق حساب Ú©Û’ ساتھ بر قرار کیا گیا Ú¾Û’ØŒ ان میں سے ھر ایک Ú©Ùˆ اس طرح اپنے معین مدار میںرکھا گیا  Ú¾Û’ اور قوتِ جاذبہ ودافعہ Ú©Û’ درمیان ایسا عمومی تعادل برقرار Ú¾Û’ کہ ان تمام سیاروں Ú©Û’ درمیان کسی قسم Ú©Û’ ٹکراؤ یاتصادم کا واقع هونا، ناممکن Ú¾Û’ <لاَ الشَّمْسُ یَنْبَغِی لَھَا اٴَنْ تُدْرِکَ الْقَمَرَ وَلاَ الَّیْلُ سَابِقُ النَّہَارِ وَکُلٌّ فِی فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ>[27]

زمین کو،جو انسانی زندگی کا مرکز ھے، اس پر محیط ایک کروی فضاء کے ذریعے محفوظ کیا جس سے دن رات ہزاروں شھاب ٹکرا کر ختم هو جاتے ھیں۔

سورج اورزمین کے درمیان اتنا مناسب فاصلہ برقرار کیا کہ معادن، نباتات، حیوانات اور انسانی زندگی کی نشو نما کے اعتبار سے، روشنی وحرارت تما م شرائط کے مطابق موجود رھے۔

زمین Ú©ÛŒ اپنے مدار اور محور دونوں پر حرکت Ú©Ùˆ اس طرح منظّم کیا کہ زمین Ú©Û’ زیادہ تر حصے میں طلوع وغروب اور دن ورات ھر آن موجود رھیں، آفتاب طلوع هوتے Ú¾ÛŒ سورج Ú©ÛŒ روشنی وحرارت سے نظامِ زندگی Ú©Ùˆ روشنی اور گرمی ملے اور حصولِ رزق ومعاش کا بازار گرم هوجائے اور غروب آفتاب Ú©Û’ ساتھ Ú¾ÛŒ آرام وسکون Ú©Û’ لئے رات کا اندھیرا، جو بقاءِ زندگی اور تجدید نشاط Ú©Û’ لئے ضروری Ú¾Û’ØŒ اپنے ڈیرے ڈال دے  تاکہ سورج Ú©ÛŒ مستقل حرارت یا اس Ú©Û’ مکمل انقطاع سے نظامِ حیات میں کوئی خلل واقع نہ هو <ÙˆÙŽ ھُوَ الَّذِی جَعَلَ اللَّیْلَ وَالنَّھَارَ خِلْفَةً لِّمَنْ اٴَرَادَ اٴَنْ یَّذَّکَّرَ>[28]<ÙˆÙŽ مِنْ رَّحْمَتِہ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ ÙˆÙŽ لِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہ>[29]<قُلْ اٴَرَاٴًیْتُمْ إِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَداً إِلَی یَوْمِ الْقِیٰمَةِ مَنْ إِلٰہٌ غَیْرُ اللّٰہِ یَاٴْتِیْکُمْ بِضِیَاءٍ اٴًفَلاََ تَسْمَعُوْنَ>[30]

نوروظلمت اور روز و شب دونوں، آپس کے انتھا درجے کے تضادّ و اختلاف کے باوجود، مل کر ایک ھی ھدف ومقصد پورا کرنے میں مصروفِ عمل ھیں اور دوسری جانب جو کچھ زمین میں ھے اسے دن اور جو کچھ آسمانوں میں ھے اسے رات کے وقت انسان کی نظروں کے سامنے رکھا گیا ھے تاکہ دن رات آسمانوں اور زمین کے ملک وملکوت انسان کی بصارت اور بصیرت کے سامنے موجود رھیں۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next