خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



کیا مرغی کے ایک انڈے کے متعلق غوروفکر، اس خالق کائنات کی رھنمائی کے لئے کافی نھیں ھے کہ <خَلَقَ فَسَوّٰیة وَ الَّذِیْ قَدَّرَ فَھَدیٰ>[15]

اسی لئے امام   (ع) Ù†Û’ فرمایا :((اٴترا لھا مدبر اً؟ قال: فاٴطرق ملیاً، ثم قال: اٴشھد اٴن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ واٴشھد اٴن محمداً عبدہ ورسولہ، واٴنک إمام وحجة من اللّٰہ علی خلقہ واٴنا تائب ممّا کنت فیہ))[16]

ھاں، وھی علم و قدرت اور حکمت جو مٹی کے گھپ اندھیرے میں بیج اور انڈے کے چھلکے کی تاریکی میں چوزے کو کسی ھدف اور مقصد کے لئے پروان چڑھاتا ھے، ماں کے پیٹ اور اس کے رحم کی تاریکیوں میں انسانی نطفے کو، جو ابتداء میں خوردبین سے نظر آنے والے جاندار سے بڑھ کر نھیں هوتا اور اس میں انسانی اعضاء و جوارح کے آثار تک نھیں هوتے، رحمِ مادر سے باھرزندگی بسر کرنے کے لئے تمام ضروریات زندگی سے لیس کرتا ھے۔

مثال کے طور پر جنین میں، ہڈیوں کو اپنی ذمہ داری نبھانے کے لئے مختلف شکل اور حجم میں بنایا، مختلف حرکات کے لئے عضلات کو قرار دیا،دماغ کی حیرت انگیز بناوٹ کے ذریعے مشعلِ ادراک کو روشن کیا اور دل کی فعالیت کے ذریعے جو ھرسال کروڑوں بار دھڑکتا ھے، حرارتِ حیات کو زندگی کے اس مرکز میں محفوظ فرمایا۔

انسانی جسم کی اس سادہ ترین ترکیب میں غوروفکر، عزیز و علیم خدا کی تقدیر پر ایمان لانے کے لئے کافی ھے۔ مثال کے طور پر انسان کے منہ میں تین قسم کے دانت بنائے، پھلے ثنایا اس کے بعد انیاب، پھر اس کے بعد چھوٹے طواحن اور آخر میں بڑے طواحن کو قرار دیا [17]۔اگر ثنایا، انیاب اور چھوٹے طواحن کو بڑے طواحن کی جگہ قرار دیا جاتا تو دانتوں کی ترتیب میں یہ بگاڑ، غذا توڑنے اور چبانے سے لے کر اس چھرے کی بد صورتی اور خوبصورتی میں کیا کردار ادا کرتا ؟!

اگر بھنویں جو آنکھوں کے اوپر ھیں، نیچے اور ناک کے سوراخ، نیچے کے بجائے اوپر کی سمت هوتے تو کیا هوتا؟!

زمین کی آبادی اور اس پر آبا د کاری، چاھے کاشتکاری هو یا مضبوط ترین عمارت یانازک و دقیق ترین صنعت ، سب کے سب، انگلی کی پوروں اور اس پر ناخنوں کے اگنے سے وابستہ ھیں۔

وہ کونسی حکمت ھے جس نے ناخن بنانے والا مادّہ، انسان کی غذا میں فراھم کیا، اسے حیرت انگیز طریقے سے ہضم کے مرحلے سے گزارا اورپھر رگوں میں داخل کر کے انگلیوں کی پوروں تک پھنچایا اور اس تخلیق کی غرض کو مکمل کرنے کے لئے گوشت اور ناخن میں پیوند کے ذریعے ان دونوں کے درمیان ایسا رابطہ بر قرار کیا کہ ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا نھایت طاقت فرسا کام ھے، لیکن غرض ومقصد حاصل هونے کے بعد ان کو اس طرح ایک دوسرے سے جدا کر دیا کہ ناخن آسانی کے ساتھ کاٹے جاسکیں؟!

تعجب آور تو یہ ھے کہ جس غذا سے ناخن کا مادّہ اس سختی کے ساتھ تیار هوا ھے، اسی غذا سے کمالِ لطافت کے ساتھ ایک صاف اورشفاف مادّہ، بینائی کے لئے بھی تیا رہوا ھے جو ہضم وجذب کے مراحل کو طے کرنے کے بعد آنکھ تک جا پھنچتا ھے۔

اگر ان دونوں کے طے شدہ تقسیمِ رزق میں کام الٹ جاتا اورناخن آنکھ سے نکل آتا، جب کہ وہ صاف شفاف مادّہ آنکھوں کی بجائے انگلیوں کی پوروں تک جا پھنچتا، تو انسانی نظامِ زندگی میں کتنا بڑا خلل واقع هوجاتا ؟!



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next