خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



جیسا کہ ایک روشن فضاکا وجود،جس کی اپنی ذاتی روشنی کوئی نھیں اس بات کی دلیل ھے کہ اس روشنی کامبدا ضرور ھے جو اپنے ھی نور سے روشن ومنور ھے ورنہ ایسے مبدا کی غیر موجودگی میں فضا کا روشن ومنور هونا ممکن ھی نھیں ھے، کیونکہ ذاتی طور پر تاریک موجو د کا غیر ، تو درکنار خود کو روشن کرنا بھی محال ھے۔

اسی لئے وجود کائنات اور اس Ú©Û’ کمالات ،مثال Ú©Û’ طورپر حیات، علم اور قدرت، ایک ایسی حقیقت Ú©Û’ وجود Ú©ÛŒ دلیل ھیں جس کا وجود، حیات، علم اورقدرت کسی غیر Ú©Û’ مرھون منت نھیں<اٴَمْ خُلِقُوْا مِنْ غَیْرِ شَیْءٍ اٴَمْ ھُمُ الْخَالِقُوْنَ>[4] ((عن ابی الحسن بن موسی الرضا   (ع) اٴنہ دخل علیہ رجل فقال لہ: یا ابن رسول اللّٰہ! ما الدلیل علی حدوث العالم؟ فقال (ع): اٴنت لم تکن ثم کنت وقد علمت اٴنک لم تکوّن نفسک ولا کوّنک من Ú¾Ùˆ مثلک))[5]

ابو شاکر دیصانی Ù†Û’ Ú†Ú¾Ù¹Û’ امام  (ع) سے پوچھا: اس بات Ú©ÛŒ کیا دلیل Ú¾Û’ کہ آپ (ع)  Ú©Ùˆ کوئی خلق کرنے والا Ú¾Û’ØŸ امام Ù†Û’ فرمایا: ((وجدت نفسی لا تخلو من إحدی الجھتین، إما اٴن اٴکون صنعتھا اٴنا اٴو صنعھا غیری، فإن کنت صنعتھا اٴنا فلا اٴخلو من اٴحد المعنیین،إما   اٴن اٴکون صنعتھا وکانت موجودة، اٴو صنعتھا وکانت معدومة فإن کنت صنعتھا وکانت موجودة فقد استغنیت بوجودھا عن صنعتھا، Ùˆ إن کانت معدومة فإنک تعلم اٴن المعدوم لا یحدث شیئًا، فقد ثبت المعنی الثالث اٴن Ù„ÛŒ صانعاً ÙˆÚ¾Ùˆ اللّٰہ رب العالمین))[6]

جو چیز نہ تھی اور موجود هوئی یا تو خود اس نے خود کو وجود عطاکیا یا کسی غیر نے۔ اگر خود اس نے خود کو موجود کیا، یا تو وہ خودپھلے سے موجود تھی اور اس نے خود کو موجود کیا یا پھلے سے موجود نہ تھی،پھلی صورت میں موجود کو وجود عطا کرنا ھے جو محال ھے اور دوسری صورت میں معدوم کو وجود کی علت وسبب قرار دینا ھے اور یہ بھی محال ھے۔ اگر کسی دوسرے نے اسے وجود عطا کیا ھے اور وہ بھی پھلے نہ تھا اور بعد میں موجود هوا ھے تو وہ اسی کی مانند ھے۔

لہٰذا، بحکم عقل جو بھی چیز پھلے نہ تھی اور بعد میں موجود هوئی اس کے لئے ایسے خالق کا هونا ضروری ھے جس کی ذات میں عدم ونابودی کا سرے سے کوئی عمل دخل نہ هو۔

اسی لئے، کائنات میں رونما هونے والی تمام تبدیلیاں اور موجودات اس خالق کے وجود پر دلیل ھیں جسے کسی دوسرے نے خلق نھیں کیا ھے اور وہ مصنوعات ومخلوقات کا ایسا خالق ھے جو خود مصنوع و مخلوق نھیں ھے۔

ب):اگر کسی بیابان میںکوئی ایسا ورق پڑا ملے جس پر الف سے یاء تک تمام حروف تھجی ترتیب سے لکھے هوں،ھر انسان کا ضمیر یہ گواھی دے گا کہ ان حروف کی لکھائی اور ترتیب، فھم و ادراک کا نتیجہ ھیں اور اگر انھی حروف سے کلمہ اور کلمات سے لکھا هوا کلام دیکھے تو اس کلام کی بناوٹ و ترکیب میں موجود دقّت نظر کے ذریعے موٴلف کے علم وحکمت پر استدلال کرے گانیز اگر کسی کی گفتار میں انھی خصوصیات کا مشاھدہ کرے گا تو مقرر کے علم وحکمت کا معترف هو جائے گا۔کیا ایک پودے میں موجود عناصر اولیہ کی ترکیب،کتاب کی ایک سطر کی جملہ بندی سے کم تر ھے، جو لکھنے والے کے علم پر نا قابل انکار دلیل ھے؟!

وہ کونسا علم اور کیسی حکمت ھے جس نے پانی اور مٹی میں بیج کے چھلکے کے لئے موت اور بوسیدگی کا مادہ فراھم کیا ھے اور اس بیج کے مغز کو پودے کی شکل میں زندگی عطا کی ھے ؟!

 Ø¬Ú‘ Ú©Ùˆ وہ قدرت وطاقت عطا Ú©ÛŒ Ú¾Û’ کہ زمین Ú©Û’ دل Ú©Ùˆ چیرکر مٹی Ú©ÛŒ تاریک تہوں سے پودے Ú©Û’ لئے خوراک جذب کرتی Ú¾Û’ اور مٹی Ú©Û’ حصوں سے مختلف درختوں Ú©Û’ لئے خوراک فراھم Ú©ÛŒ Ú¾Û’ØŒ تاکہ ھر پودا اور ھر درخت اپنی مخصوص خوراک حاصل کر سکے اور درختوں Ú©ÛŒ جڑوں Ú©Ùˆ ایسا بنا یا Ú¾Û’ کہ وہ اپنی مخصوص خوراک Ú©Û’ علاوہ جو ا س درخت Ú©Û’ مخصوص Ù¾Ú¾Ù„ Ú©Ùˆ جاملتی Ú¾Û’ØŒ کوئی اور خوراک جذب نہ کریں اور زمین Ú©ÛŒ کشش ثقل کا مقابلہ کرتے هوئے پانی اور خوراک درخت Ú©Û’ تنے اور شاخوں تک پھنچائیں۔جس وقت جڑیں زمین سے پانی اور خوراک Ù„Û’ کر درخت Ú©Û’ تنے اور شاخوں تک پھنچانے میں مصروف عمل هوتی ھیں، اسی دوران  تنا بھی فضا سے هوا اور روشنی لینے Ú©Û’ عمل Ú©Ùˆ انجام دے رھا هوتا Ú¾Û’ ((کلّ میسّر لما خلق لہ))[7]،جس قدر بھی کوشش Ú©ÛŒ جائے کہ جڑ، جسے مٹی Ú©Û’ اعماق تک جانے اور تنا جسے فضا میں سر بلند کرنے Ú©Û’ لئے بنا یا گیا ھے،کو اس حکیمانہ سنت سے روکیں اور اس Ú©Û’ برعکس جڑ Ú©Ùˆ فضا اور تنے Ú©Ùˆ مٹی میں قرار دیں تو یہ دونوں قانون Ú©ÛŒ اس خلاف ورزی کا مقابلہ کرتے هوئے طبیعی طریقہ کار Ú©Û’ مطابق اپنی نشونما جاری رکھیں Ú¯Û’ <وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللّٰہِ تَبْدِیْلاً>[8]

فقط ایک درخت اور ان رگوں کی جو اس کی جڑوں سے ہزار ھا پتوں تک حیرت انگیز نظام کے ساتھ پھنچائی گئی ھیں، بناوٹ اور پتوں کے ھر خلیے کو دی جانے والی قدرت وتوانائی میں غور وفکر، جس کے ذریعے وہ جڑو ں سے اپنی خوراک اورپانی کوجذب کرتے ھیں، اس بات کے لئے کافی ھے کہ انسان لا متناھی علم وحکمت پر ایمان لے آئے <اٴَمَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَاْلاٴَرْضَ وَ اٴَنْزَلَ لَکُمْ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاٴَنْبَتْنَا بِہ حَدَائِقَ ذَاتَ بَہْجَةٍ مَّا کَانَ لَکُمْ اٴَنْ تُنْبِتُوْا شَجَرَہَا اٴَ إِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ بَلْ ھُمْ قَوْمٌ یَّعْدِلُوْنَ>[9]<اٴَ اٴَنْتُمْ اٴَنْشُاٴْتُمْ شَجَرَتَہَا اٴَمْ نَحْنُ الْمُنْشِوٴُنَ>[10] <وَ اٴَنْبَتْنَا فِیْھَا مِنْ کُلِّ شَیْءٍ مَّوْزُوْنٍ>[11]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next