خدا پر ایمان لانے کا راستہ :



پھر اس نے امام (ع) سے پوچھا : پس اس کے وجودکی دلیل کیا ھے ؟

امام (ع) نے آفاق و انفس میں موجود آیاتِ خد ا کی ھدایت کی اور جسم کی بناوٹ میں تفکروتدبر کے ذریعے اس نکتے کی طرف توجہ دلائی کہ اپنے وجود کی اس بناوٹ میں جن باریک نکات اور لطا ئف ِحکمت کا خیال رکھا گیا ھے، ان کے ذریعے اس خالق کے علم وحکمت کا اندازہ لگائے۔ اسے بادلوں، هوا، سورج،چاند اور ستاروں کی حرکت میں غوروفکر کرنے کو کھا تاکہ اجرام فلکی میں موجود عجائب ِقدرت وغرائب ِحکمت میں تفکر وتدبر کے ذریعے عزیز و علیم کی قدرت تک پھنچ سکے اور متحرکات آسمانی کی حرکت کے ذریعے تغیر وحرکت سے منزہ محرّک پر ایمان لے آئے۔[36]

ج): مادّے و طبیعت میں موجود تغیر وتحول، اس مادّے وطبیعت سے برتر قدرت کی دلیل ھیں،کیونکہ مادّہ یا اس سے منسوب کسی بھی مادّی شے میں تاثیر،وضع ومحاذات کی محتاج ھے۔مثال کے طور پر آگ جو حرارت ِجسم میں تاثیر رکھتی ھے یا چراغ جس کی شعاع فضا کوروشن ومنور کرتی ھے، جب تک آگ یا چراغ کی اس جسم یا فضا کے ساتھ خاص نسبت پیدا نہ هو، ممکن ھی نھیں ھے کہ جسم ا س آگ کی حرارت سے گرم یا فضا اس چراغ کے نور سے روشن و منور هوجائے، اورچونکہ معدوم کے ساتھ وضع اورنسبت کا برقرار هونا محال ھے، لہٰذ ا ایسے موجودات جو پھلے مادہ و طبیعت میں نہ تھے اور بعد میں وجودپایا یا پائےں گے، ان موجودات میں مادہ وطبیعت کی تاثیر ممکن نھیں ھے۔آسمان و زمین میں موجود هونے والا ھر معدوم ایسی قدرت کے وجود کی دلیل ھے جس کو تاثیر کے لئے وضع ومحاذات کی ضرورت نھیں ھے اوروہ ماورائے جسم وجسمانیات ھے<إِنَّمَا اٴَمْرُہ إِذَا اٴَرَادَ شَیْاٴً اٴَنْ یَّقُوْ لَ لَہ کُنْ فَیَکُوْنُ>[37]

د):خدا پر ایمان انسان کی سرشت میں موجود ھے، کیونکہ فطری اعتبار سے انسان اپنے آپ کو ایک مرکز سے وابستہ اور محتاج پاتا ھے، لیکن اسبابِ معیشت کی مصروفیت اور خواھشات نفسانی سے لگاؤ اس وابستگی کے مرکز کو پانے میں رکاوٹ ھیں۔

جب بے چارگی اور ناامیدی اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی Ú¾Û’ اور فکر Ú©Û’ تمام چراغوں Ú©Ùˆ بجھا هو ا اور تمام صاحبان قدرت Ú©Ùˆ عاجز پاتا Ú¾Û’ØŒ اس کا سویا هوا ضمیر جاگ اٹھتا Ú¾Û’ اور جس غنی بالذات پر فطرتاً بھروسا کئے هوئے Ú¾Û’ØŒ اس سے بے اختیار مدد طلب کرتا Ú¾Û’<قُلْ مَنْ یُّنَجِّیْکُمْ مِنْ ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ تَدْعُوْنَہ تَضَرُّعاً وَّ خُفْیَةً لَّئِنْ اٴَنْجَاْنَا مِنْ ھٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشَّاکِرِیْنَ>[38] <ÙˆÙŽ إِذَا مَسَّ اْلإِنْسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّہ مُنِیْبًا إِلَیْہِ ثُمَّ إِذَا خَوَّلَہ نِعْمَةً مِّنْہُ نَسِيَ مَا کَانَ یَدْعُوْا إِلَیْہِ مِنْ قَبْلُ ÙˆÙŽ جَعَلَ لِلّٰہِ اٴَنْدَادًا لِّیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِہ>[39] <ھُوَ الَّذِی   یُسَیِّرُکُمْ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ حَتّٰی إِذَا کُنْتُمْ فِی الْفُلْکِ ÙˆÙŽ جَرَیْنَ بِہِمْ بِرِیْحٍ طَیِّبَةٍ وَّ فَرِحُوْا بِہَا جَائَتْہَا رِیْحٌ عَاصِفٌ وَّ جَائَہُمُ الْمَوْجُ مِنْ کُلِّ مَکَانٍ وَّ ظَنُّوا اٴَنَّہُمْ اٴُحِیْطَ بِہِمْ دَعَوُا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِِّیْنَ لَئِنْ اٴَنْجَیْتَنَا مِنْ ہٰذِہ لَنَکُوْنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیْنَ>[40]

ایک شخص Ù†Û’ امام صادق   (ع) سے عرض Ú©ÛŒ : ((یا ابن رسول اللّٰہ! دلّنی علی اللّٰہ ما هو، فقد اٴکثر علیّ المجادلون Ùˆ حیرونی۔ فقال لہ: یا عبد اللّٰہ ØŒ Ú¾Ù„ رکبت سفینة قط؟ قال: نعم۔ قال: فھل کسر بک حیث لا سفینة تنجیک Ùˆ لا سباحة تغنیک؟ قال: نعم، قال: فھل تعلق قلبک ھنالک اٴن شیئاً من الاٴشیاء قادر علی اٴن یخلصک من ورطتک؟ قال: نعم، قال الصَّادق (ع): فذلک الشیٴ Ú¾Ùˆ اللّٰہ القادر علی الإنجاء حیث لا منجي وعلی الإغاثة حیث لا مغیث))[41]

جیسا کہ بے چارگی کے عالم میں دوسروں سے انقطاع ِمطلق کے دوران خداوندِ متعال کی یہ معرفت اور فطری ارتباط حاصل هو جاتا ھے، اختیاری حالت میں بھی اسے علم وعمل جیسے دو پروں کے ذریعے پرواز کر کے حاصل کیا جاسکتا ھے:

حضرت فرماتے ھیں:کیا کبھی کشتی پر سوار هوئے هو؟کہتا Ú¾Û’ :ھاں حضرت فرماتے ھیں :کیا کبھی ایسا بھی هوا Ú¾Û’ کہ کشتی ٹوٹ گئی هو اور وھاں پر کوئی اور کشتی نہ جس پر سوار هو جاوٴ اور نجات مل جائے اور نہ تیرنا آتا هو جس سے تم نجات پاجاوٴ جوا ب دیتا Ú¾Û’ :ھاں حضرت Ù†Û’ فرمایا:  ایسے حال میں تمھارے دل میں کسی قادر توانا کا خیال آیا جو تم Ú©Ùˆ ابھی بھی نجات دلا سکتا ھے؟کہتا Ú¾Û’ :ھاں حضرت Ù†Û’ فرمایا:بس ÙˆÚ¾ÛŒ خدا Ú¾Û’ جو ایسے حالات میں بھی تم Ú©Ùˆ نجات دے سکتا Ú¾Û’ جب کوئی تمھاری مدد نہ کرسکے۔

اول)یہ کہ نور عقل کے ذریعے انسان، جھالت وغفلت کے پردوں کو پاراکرے اور دیکھے کہ موجودات کا وجود اور ان کے کمالات ذاتی نھیں، بلکہ سب کے سب ذات قدوس کی جانب منتھی هوتے ھیں <ھُوَ اْلاٴَوَّلُ وَاْلآخِرُ وَالظَّاھِرُ وَالْبَاطِنُ وَھُوَ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ>[42] <ھُوَ اللّٰہُ الْخَالِقُ الْبَارِیٴُ الْمُصَوِّرُ لَہ اْلاٴَسْمَاءُ الْحُسْنٰی>[43]

 Ø¯ÙˆÙ…)یہ کہ طھارت وتقویٰ Ú©Û’ ذریعے آلودگی او ر رذایل نفسانی Ú©ÛŒ کدورت Ú©Ùˆ گوھرِوجود سے دور کرے، کیونکہ   خدا اور اس Ú©Û’ بندے Ú©Û’ درمیان جھالت وغفلت اور کدورت ِ گناہ Ú©Û’ علاوہ کوئی دوسرا پر دہ نھیں Ú¾Û’ کہ جسے علمی وعملی جھاد Ú©Û’ ذریعے پارا کرنا ضروری Ú¾Û’<وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا>[44]



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 next