امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات

استاد شعبان داداشی


لیکن اگر لوگ خدا اور رسول کے جانشین کا خود انتخاب کریں تو یہ نظریہ بالکل دلیل سے خالی ہے کیونکہ اس کے نتیجہ میں ایک طرف فاسقوں اور ظالموں کے ہاتھوں میں نبوت کی خلافت پہنچنے کا امکان ہے اور دوسری طرف یہ عمل مسلمانوں کے آپس میں اختلافات اور لڑائی کا سبب بن سکتا ہے خصوصاً عربوں کے ابتدائی اسلامی معاشرے میں کہ جس میں اسلام نے اپنی جڑیں مضبوط نہیں کی تھیں اورجاہلیت کے دورکی قبیلہ پرستی( TRIBALISM) ۔اورقوم پرستی ابھی تک لوگوں کے ذہنوں سے پوری طرح محونہیں ہوئی تھی ۔ ہم اس انتخاب کے نتیجہ میں عمر اور عثمان کا قتل، ابوبکر کو زہر دیا جانا ، حضرت علی کی شہادت اور کربلا کا عظیم ودردناک واقعہ دیکھتے ہیں اور بنی امیہ وبنی وعباس کی حکومت کی صورت میںشجرہ خبیثہ کی آبیاری کے تسلسل کو بھی دیکھتے ہیں۔

اگر اعتراض کرنے والے خدا اور رسول (ص) ۔کی طرف سے امامت کے انتخاب کو عقل کے خلاف سمجھتے ہیں تو یقینا وہ بنی امیہ جیسے ظالموں اور چند دیگر فاسق خلیفوں کے حکومت میں آنے کو صحیح سمجھتے ہوں گے ۔

شبہ سوم:

شیعوں کے نظریہ کے مطابق پیامبر اکرم (ص) ۔نے خود حضرت علی کو اپنا خلیفہ نامزد کیا تھا ۔ اگر ایسا واقعہ تاریخ میں ہوا تھا تو کس طرح ممکن ہے کہ پوری امت نے یہ واقع بھلا دیا؟

 

جواب:

اس قسم کے اعتراض کرنے والے کو چاہیے تھا کہ اپنے اس اعتراض کو امت سے جوڑنے بجائے اہل سنت کے دوسرے متکلمین کی طرح اِس طرح پیش کرے کہ کس طرح اصحاب پیامبر (ص) ۔ کہ اس قدر متقی، دیندار اور پیامبر اکرم (ص) ۔ کے فرمانبردار ، پیامبر اکرم (ص) ۔ کے اس فرمان کو کہ جس میں انہوں نے حضرت علی کو اپنا جانشین نامزد کیا ہے ، سے انکار کردیا اور اہل سنت کہتے ہیں کہ یہ بات قابل قبول نہیں ہے کیونکہ وہ تمام صحابہ کی عدالت کے قائل ہیں اور اس طرح پیامبر اکرم (ص) ۔ نے ایسی کوئی بات نہیں کہی ۔

لیکن جس طرح صدر اسلام میں بعض صحابیوں کی طرف سے اس بات کو دبا دیا گیا ، آنے والی نسل نے بھی اس روش کا جاری رکھا ۔ یہ اعتراض کہ کس طرح اتنی اہم بات پوری امت بھلا سکتی ہے ، اس بات کی دلیل اہل سنت اس ہی بات پر بناتے ہیں کہ چونکہ تمام صحابہ عادل ہیں اور ان میں سے کسی کی بھی اطاعت کرلی جائے کافی ہے، بس ایسا نہیں ہوسکتا ہے کہ صحابہ پیامبر (ص) ۔ کی بات کے خلاف کچھ کریں۔ جبکہ قرآن، سنت پیامبر (ص) ۔اور تاریخ اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ صحابہ کے درمیان ایسے لوگ تھے کہ جو منافقین، مرتدین، جنگوں سے بھاگے ہوئے، پیامبر (ص) ۔ کو تکلیف پہچانے والے، پیامبر (ص) ۔ کے رازوں کو فاش کرنے والے اور جھوٹ بولنے والے تھے ۔

دس فیصد قرآن کی آیتیں منافقین کے متعلق ہیں۔ مدینہ مسلمانوں کا مرکز تھا اورقرآن کے مطابق ان میں کچھ لوگ منافق تھے اور پیامبر(ص) ۔اُن کو پہچانتے تھے ۔(2) ۔ و مِمن حولکم مِن الاَعرابِ منافِقون و مِن اہلِ المدینةِ مردوا علیَ النِفاقِ لا تعلمہم نحن نعلمہم سنعذِبہم مرتینِ ثم یردون اِلیٰ عذابٍ عظیمٍ (التوبہ١٠١) ۔

(اور تمہارے گرد و پیش کے بدوں میں اور خود اہل مدینہ میں بھی ایسے منافقین ہیں جو منافقت پر اڑے ہوئے ہیں، آپ انہیں نہیں جانتے (لیکن) ۔ ہم انہیں جانتے ہیں، عنقریب ہم انہیں دوہرا عذاب دیں گے پھر وہ بڑے عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next