امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات

استاد شعبان داداشی


یہ حادثہ رزِی یوم الخمیس(یعنی جمعرات کے روز کی مصیبت) ۔سے معروف ہے ۔ اس واقعہ کو بخاری نے صحیح میں ج1 ص 111 باب العلم باب 39 اور ج4 ص 62 باب قول المریض کتاب المرض ج 2 ص 122 کتاب الشروط فی الجہاد ج4 ص 271 کتاب الاعتصام بالکتاب و السنہ باب کراہیہ الخلاف میں نقل کیا ہے ۔ جناب عمر کا پیامبر اکرم(ص) ۔ کے بارے میں وہ مشہور جملہ کہنا کہ ان الرجل لیھجر (پیغمبر ہذیان کہہ رہے ہیں) ۔اس حال میں تھا کہ پیامبر (ص) ۔ زندہ تھے اور وہ جناب عمر کو دیکھ رہے تھے جبکہ عمر سارے اصحاب کے درمیان یہ توہین آمیز جملہ اپنی زبان سے جاری کر رہے تھے تو ایسا شخص کیا ولایت علی کا منکر نہیں ہوسکتا؟ جناب عمر نے خود عبد اللہ بن عباس سے ایک روز کہا تھا: ''میں نے جان بوجھ کر یہ جملہ کہا تھا کیونکہ مجھے پتہ تھا کہ وہ(آنحضرت ص) ۔کیا لکھنا چاہتے ہیں وہ علی کے بارے میں وصیت کرنا چاہتے تھے کہ میں آڑے آگیا ۔'' (13) ۔

جناب عمر اور ان جیسے لوگوں نے جان بوجھ کر پیامبر (ص) ۔ کی طرف سے وصیت لکھے جانے کی مخالفت کی اور اگر پیامبر (ص) ۔ وصیت لکھ بھی دیتے پھر بھی وہ مخالفت سے بازنہ آتے تو کیاایسی صورت میں علی کی ولایت کی مخالفت کرنا ایسے صحابہ سے بعید ہے؟

٣۔ پیامبر (ص) ۔ کی اجازت کے بغیر ان کی جگہ نماز پڑھانا

تمام چودہ دنوں میں کہ جب پیامبر اکرم (ص) ۔ شدت مرض کی وجہ سے اپنے بستر سے نہیں اٹھ سکتے تھے تو آپ (ص) ۔ کی جگہ حضرت علی نے نماز پڑھائی ۔ (14) ۔آنحضرت کی زندگی کے آخری پیر کے روز جب حضرت بلال نے فجر کی اذا ن دی تو ہر روز کی طرح آنحضرت (ص) ۔ کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ نماز کے لیے تشریف لے آئیے کہ لوگ آپ کے منتظر ہیں پیامبر اکرم (ص) ۔نے کہا کہ میرے بھائی علی سے کہو کہ نماز پڑھائے ۔ جناب بلال پلٹ گئے ۔

جناب عائشہ نے اپنے والد ابوبکر سے کہا کہ آپ نماز پڑھائیں۔ وہ پیامبر (ص) ۔ سے اجازت لئے بغیر نماز پڑھانے کھڑے ہوگئے دوسری طرف جب پیامبر (ص) ۔ کو پتہ چلا کہ ابوبکر نماز پڑھا رہے ہیں تو کہا: مجھے اٹھائو، آنحضرت (ص) ۔ کواٹھایا گیا اور آپ (ص) ۔ مسجد میں داخل ہوئے اور اپنے ہاتھوں سے اشارہ کیا کہ ابوبکر کو کنارے کیا جائے ۔پیامبر (ص) ۔ نے نماز دوبارہ بیٹھ کر پڑھائی اور نماز کے بعد کہا کہ مجھے اٹھائو اور منبر پر بٹھائو۔پھر آپ(ص) ۔ نے دوبارہ غدیر کے خطبہ کو پڑھا اور امام علی کے ہاتھ کو پکڑ کر دوبارہ یہ جملہ کہا کہ من کنت مولاہ فھذا علی مولا ۔(15) ۔

اگر ابوبکر کا نماز پڑھانا پیامبر اسلام (ص) ۔ کی مرضی کے مطابق تھا تو پھر آپ (ص) ۔کیوںشدت مرض کی حالت میں مسجد تشریف لائے اور نماز کو بیٹھ کر پڑھایا اور ابوبکر کی نماز کو ختم کروایا اور اس واقع کے بعد ابوبکر مسجد سے فورا چلے جاتے ہیں اور اپنے گھر کہ جو سخ میں تھا اس میں جاکر خانہ نشین ہوجاتے ہیں۔(16) ۔اور اس بات سے پتہ چلتا ہے کہ جناب ابوبکر آنحضرت (ص) ۔ کی مرضی کے خلاف نماز پرھانے کھڑے ہوئے تھے اور اس سے زیادہ عجیب بات یہ ہے کہ آنحضرت(ص) ۔ اس ہی روز اس دنیا سے رخصت ہوتے ہیں، لوگ ظہر کی نماز فرادا پڑھتے ہیں لیکن عصر کی نماز دوبارہ ابوبکر کی امامت میں پڑھی جاتی ہے اور کوئی اعتراض نہیں کرتا کہ یہ وہی صاحب ہیں کہ جو آج صبح مسجد سے فرار ہوگئے تھے ۔

بخاری اور مسلم نے اپنی کتابوں میں اس ماجرے کو ذکر کیا ہے ۔(17) ۔

٤۔ صلح حدیبیہ کے موقع پر اصحاب کی کھلی مخالفت کرنا

چھ ہجری ، ذیعقد کے مہینے میں پیامبر اسلام (ص) ۔ عمرہ کی نیت سے نکلتے ہیں اور تمام مسلمانوں کو حکم دیتے ہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ آئیں لیکن بہت سارے منافقین اور اصحاب آپ (ص) ۔ کے ساتھ نہیں آتے ۔ تقریبا چھ سو افراد پیامبر (ص) ۔ کے ساتھ عمرہ کے لیے روانہ ہوتے ہیں اوردوسری طرف قریش نے راستہ کی ناکہ بندی کردی ہے اور پیامبر (ص) ۔ اور ان کے اصحاب کو مکہ میں داخل ہونے سے روک دیاہے ۔ بہرحال گفت و شنید کے بعد مسلمانوں اور قریش کے درمیان صلح کے معاہدہ کا اعلان ہوتا ہے لیکن اس صلح کی جناب عمر کے ساتھ ساتھ کئی اور صحابہ نے مخالفت کی ۔ جناب عمر نے فرمایا کہ صلح حدیبیہ کے بعد مجھے پیامبر اکرم (ص) ۔ کی نبوت پر شک ہوا تھا اگر میرے ساتھ میرے ساتھی ہوتے تو میں ان سے جنگ کرتا ۔

صلح ہونے کے بعد رسول خدا (ص) ۔ نے حکم دیا کہ سب اپنے احراموں کو اتار دیں لیکن کسی نے آپ (ص) ۔ کے حکم کو نہیں سنا اور پیامبر (ص) ۔ شدید غصہ کی حالت میں جناب ام سلمہ (س) ۔کے خیمے میں داخل ہوجاتے ہیں۔ جناب ام سلمہ(س) ۔ پیامبر اکرم (ص) ۔کے غصہ و پریشانی کی وجہ کو سمجھتے ہوئے ان کو مشورہ دیتی ہیں کہ آپ خود اپنے احرام کو اتار دیں، یہ لوگ بھی آہستہ آہستہ احرام اتار دیں گے ۔(18) ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next