امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات

استاد شعبان داداشی


جب ہم نے امامت کے وجود کو عقلی دلائل اور نقلی دلائل سے ثابت کردیا تو پھر اصول یہ ہے کہ جب حق ثابت ہوجاتا ہے تو پھر اگر ایک فرد یا چند افراد اس کی حمایت کریں یا اس کا انکارکریں اس سے حق کی حقانیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا، بلکہ پھر لوگوں پر لازم ہوتا ہے کہ اپنے آپ کو اس حق کے ساتھ کریں۔

جب علی مع الحق و الحق مع العلی ہو ، لوگوں کو امام علی کی ذات سے تولا جاتا ہو کیونکہ وہ ایمان، ہدایت اور نور کی علامت ہوں'' حبہ ایمان و بغضہ کفر'' ہو تو اس منزل پر ان کی حقانیت طلحہ، زبیر ، معاویہ اور ابوہریرہ جیسے لوگوں کی باتوں سے نہیں پرکھی جاسکتی ۔

خاندان اہل بیت میںامامت، حدیث متواتر کے مطابق ثابت ہے ۔پیامبر اکرم (ص) ۔ نے فرمایا ''ان خلفائی اثنا عشر خلیفة'' یعنی میرے خاندان سے میرے بارہ خلیفہ ہوں گے ۔ یہ بارہ خلیفہ پیامبر اکرم (ص) ۔ کی طرح معصوم اور علم الہی کے حامل ہوں گے اور اہل بیت میں شامل دوسرے افراد ان کے حامل نہیں ہیں۔ پھر ممکن ہے کہ اس خاندان کا کوئی فرد ہوا و ہوس اور دنیاوی اغراض میں مبتلاء ہوجائے لیکن تاریخ نے ثابت کیا ہے کہ اس خاندان کے زیادہ تر افراد متقی، علما اور صالح تھے ۔

بس نتیجہ یہ نکلا کہ اگر اس خاندان میں کوئی دنیا طلب فرد پیدا ہوتا ہے تو اس سے اس خاندان میں خلافت کے موجود ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔

زید بن علی علیہ الرحمہ کے بارے میں تاریخ گواہی دیتی ہے کہ آپ عالم ، مفسر قرآن، محدث اور عابد و پرہیز گار شخصیت تھے ۔ اتفاقاً یہ حدیث '' اِن خلفایی اثنا عشر خلیفة'' جناب زید سے بھی نقل ہوئی ہے ۔(24) ۔جناب زید ابن علی کا قیام، امر بالمعروف اور نہی ازمنکر کی خاطر تھا اور ہرگز ان کا قیام لوگوں کو اپنی طرف دعوت دینا نہ تھا اور نہ ہی انہوں نے ائمہ کی امامت کا انکار کیا تھا ۔ جناب زید بن علی علیہ الرحمہ کے قیام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس وقت کے اموی خلیفہ ہشام بن عبد الملک نے امام باقر کی بے عزتی کی تھی اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر جناب زید اپنے قیام میں کامیاب ہوجاتے تو خلافت کو اس کے اصل حقدار تک پہنچا دیتے ۔ اسی وجہ سے ائمہ اہل بیت اور اہل تشیع کے علمائے رجال نے جناب زید بن علی کی شخصیت کی تائید کی ہے اور آپ کے قیام کی وجہ امر بہ معروف اور نہی از منکر کو قرار دیا ہے اور جناب زید اور آج کہ فرقہ زیدیہ کے درمیان فرق کے قائل ہیں کیونکہ جناب زید بن علی زیدیہ فرقہ سے کوئی رابطہ اور نسبت نہیں رکھتے تھے ۔ مرحوم صدوق نے اپنی کتاب عیون الرضا میں امام علی رضا سے حدیث نقل کی ہے کہ جس میں امام رضا نے جناب زید کے قیام کی تائید کی ہے اور اس بات کی کہ جناب زید امامت کا دعوی کرتے تھے، تردید کی ہے اور جناب زید کو اس طرح کے دعووں سے بلند قرار دیا ہے ۔(25) ۔

بہرحال نتیجہ اس مختصر سی بحث کا یہ ہے کہ اگر خاندان اہل بیت سے امامت کی مخالفت میں کوئی کھڑاہوتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ امامت اہل بیت میں نہیں تھی اور اگر ہم اعتراض کرنے والے کے اعتراض کو قبول کرلیتے ہیں تو پھر ہمیں یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ کیونکہ ابولہب وغیرہ نے رسول خدا (ص) ۔کی مخالفت کی تھی اسی لیے نعوذ باللہ پیامبر (ص) ۔ حق پر نہیں تھے ۔ اور یہ بھی قبول کرنا پڑے گا کہ جس طرح اہل سنت جناب ابو بکر کی خلافت کو حق تسلیم کرتے ہیں تو چونکہ جناب محمد بن ابی بکر اور قاسم بن محمد بن ابی بکر نے جناب ابوبکر کی خلافت کے مسند پر بیٹھنے کی مخالفت کی تو جناب ابوبکر کی خلافت صحیح نہیں تھی کیونکہ ان کے بیٹے اور پوتے نے ان کی مخالفت کی تھی جبکہ یہ حقیقت ہے کہ اہل سنت اس طرح کی مخالفتوں پر توجہ نہیں دیتے ۔

تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ لوگوں کو حق پر تولا جاتا ہے نہ حق کو لوگوں کے رویوں پر۔ لوگوں کی حق سے مخالفت حق کو صحیح یا باطل نہیں کرتی ۔

و الحمد للہ رب العالمین

 

1. 121,3المستدرک علی الصحیحین،



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next