امامت پراُٹھائے جانے والے شبہات کے جوابات

استاد شعبان داداشی


( ۔ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول(ص) ۔ کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد تم اس سے روگردانی نہ کرو(

اب یہ کوئی نہیں کہہ سکتا کہ پیامبر (ص) ۔کا خود اپنے خلیفہ کا انتخاب کرنا اور اس کی اطاعت کرنے کا حکم دینا اور نما ز، جہاد، روزہ، زکواة، خمس اور دسیوں دیگر احکام کی بجاآوری کا پابند کرنا آزادی کے خلاف ایک جبر ی عمل ہے ۔ کیونکہ لوگوں نے خود قرآن اور رسول (ص) ۔ اور دوسرے دین کے احکامات کو اپنے یے خود انتخاب نہیں کیا ہے اور اس طرح کی دلیل لانا کہ رسول کی طرف سے خلیفہ مقرر کرنا زور و زبردستی ہے، بالکل ایک خلاف عقل بات ہے ۔ جب عقل خداوند متعال کو اور اس عالم کو بہترین خلقت کے نظام کے طور پر قبول کرتی ہے اور خدا کی اطاعت کرنے کو انسانیت کی نجات کا ذریعہ سمجھتی ہے تو پھر عقل کا یہ تقاضہ ہے کہ خدا کی ہر بات کے سامنے بہ رضا ورغبت سر تسلیم خم کیا جائے ۔

جب خداوند متعال نے رہبروں اور حکومت کرنے کے اہل لوگوں کی پہچان کرائی ہے تو پھر لوگوں پر لازم ہے کہ ان کی اطاعت کریں اور ان کی حکومت کو دل و جان سے مانیں۔ ایسی اطاعت کوہر گز زور و زبردستی سے تعبیر نہیں کیا جائے گا ۔

ِانما ولِیکم اللہ و رسولہ و الذین ء امنوا الذین یقیمون الصلاة و یؤتون الزکوٰة و ہم راِکعون( مائدہ (55/

( ۔ تمہارا ولی تو صرف اللہ اور اس کا رسول اور وہ اہل ایمان ہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکو دیتے ہیں) ۔

یا یہا الذین ء امنوا أطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و اولِی الامرِ مِنکم فاِن تنٰزعتم فی شی ئٍ فردوہ اِلیَ اللہِ و الرسولِ ا ِن کنتم تؤمِنون بِاللہِ و الیومِ الآخِرِ ذلکِ خیر وا حسن تأویلاً (النسائ/ (59(اے ایمان والو! اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اور تم میں سے جو صاحبان امر ہیں ان کی اطاعت کرو پھر اگر تمہارے درمیان کسی بات میں نزاع ہو جائے تو اس سلسلے میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو اگر تم اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو یہی بھلائی ہے اور اس کا انجام بھی بہتر ہو گا) ۔

یا جیسا کہ خود پیامبر اکرم (ص) ۔ نے فرمایا: "من اطاعنی فقد اطاع اللہ و من عصانی فقد عصی اللہ و من اطاع علیا فقد اطاعنی و من عصی علیا فقد عصانی ''((1

رہبر کے انتخاب کے دو طریقے ہوسکتے ہیں۔ یا تو خداو رسول(ص) ۔ انتخاب کریں یا لوگ اپنی رائےVote) ۔ ) ۔دے کر رہبر کا انتخاب کریں۔ دوسری بات یہ کہ اہل سنت یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص بھی کسی کی خلافت کے لیے اس کی بیعت کرے تو خلافت نافذ ہو جائے گی ۔ اب اہل سنت کے اس اعتقاد کے لیے کیا یہ نہیں کہا جائے گا کہ باقی لوگوں کا ایسے خلیفہ کی اطاعت پر مجبور ہونا کہ جو صرف ایک شخص کی بیعت سے خلیفہ بنا ہے، زور و زبردستی ہے؟یا مغرب کی جمہوریت کہ جس میں کبھی 30% لوگ ووٹ دیتے ہیں کبھی 40% اور کبھی 50% تو جو لوگ Vote نہیں دیتے تو ان پر مثلا Prime Minister کی حکومت کی اطاعت کولازم قراردینا زور زبردستی نہیں ہوگی؟

اب ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے کہ اس بات کو قبول کرلیں۔ کیونکہ سوسائٹی (معاشرہ ) ۔پر ایسے حکمران کا کہ جس کو لوگوں نے انتخاب نہیں کیا ہے، حکومت کرنے کا کوئی حق نہیں ہے ۔ پس معاشرہ خلیفہ یا رہبر یا امام کے بغیر رہے انسانی فطرت اور (Society) ۔معاشرے کے تقاضوں سے متصادم بات ہے ۔ جیسا کہ کہا گیا کہ جب خدا اپنے بندوں کے لیے حاکم کو منتخب کرتا ہے تو اس میں کسی بھی قسم کی زور و زبردستی نہیں ہے لیکن جب عوام اپنے لیے حاکم کومنتخب کرتے ہیں تو اس میں زور و زبردستی ہے کیونکہ مخلوق کومستقل طور پر لوگوں پر حکومت کرنے کا حق نہیں ہے ۔

ان نکات بالا کی روشنی میں ثابت ہوتا ہے کہ جناب عمرکا ابوبکر کو منتخب کرنا زور و زبردستی کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس طرح جناب ابوبکر کی جانب سے خلیفہ کے لئے عمر کونامز د کرنا بھی زور و زبردستی پر مبنی عمل تھا ۔ اسی طرح جناب عثمان کا انتخاب چھ لوگوں کی شوریٰ کے ذریعہ بھی زور و زبردستی و اجبار ہے اور اسلحہ کے زور پر معاویہ کا مسلط یا اس کا اپنے نا ہنجاربیٹے یزیدکوبزورطاقت جانشین مقر ر کرنا بھی زبر دستی کا مظہر ہے ۔ ازیں قبیل بنی امیہ اور عباسیوں اور ترکوں کی موروثی حکومتیں کہ جن کو اہل سنت برادران صحیح و جائز مانتے ہیں سب کی سب زور و زبردستی ،اجباری اور طاغوتی تھیں کہ یہ تمام حکومتیں اسلام کی نظر میں غلط تھیں۔ اسلام آزادی کا دوست اور زور و زبردستی کا دشمن ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next