اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود(١)

جس موضوع کے بارے میں گفتگو کی فرمائش کی گئی ہے وہ ہے'' اسلام کی نظر میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود ''ہر موضوع پر گفتگو کرنے یا اس بحث میں داخل ہونے سے قبل ضروری ہے کہ پہلے اس کا موضوع اور عنوان واضح ہوجائے پھر اس کے بعد اس کیمتعلق باتوں کی وضاحت کی جائے ۔ یہاں پر سب سے پہلے ہم یہ دیکھیں گے کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے کیا مراد ہے ؟پھر اس کے بعد اس کی حدوں کو معین کریں گے ۔

جاذبہ ،دافعہ اوراسلام کے مفاہیم کی وضاحت

ہم سبھی لوگ جاذبہ اور دافعہ کے مفہوم سے واقف ہیں ؛ہم جس وقت اس اصطلاح کو سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں عام طور سے وہ جذب اور دفع آتا ہے جو کہ مادی اور طبعیی چیزوں میں بیان ہوتا ہے ؛خاص طور سے آپ اساتیدکے لئے جو کہ انجینئرنگ شعبہ سے تعلق رکھتے ہیں معمولاً '' نیوٹن ''کا عام قانون جاذبہ ذہن میں آتا ہے؛ دافعہ کا مصداق بھی طبیعی علوم میں وہ طاقت ہے جو مرکز سے علیحدہ اور جدا کرنے والی یا وہ دافعہ جو دو ہمنام مقناطیسی قطب کے درمیان پایا جاتا ہے؛ لیکن جب یہ مفہوم انسانی اور اجتماعی علوم میں آتا ہے تو فطری طور سے وہ بدل جاتا ہے اس وقت اس سے مرادیہ طبیعی اور مادی جذب و دفع نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی اور معنوی جذب و دفع مراد ہوتا ہے، یعنی جیسے انسا ن احساس کرتا ہے کہ کوئی چیز اس کو اپنی طرف کھینچ رہی ہے اور وہ چاہتا ہے اس کے نزدیک ہو جائے ،یہاں تک کہ اگر ممکن ہو تو اس سے مل کر ایک ہو جانا چاہتا ہے، یا اس کے بر خلاف بعض انسانوں کو آپ دیکھتے ہیں کہ وہ بعض چیزوںیا بعض لوگوں سے قریب ہونا نہیں چاہتے ہیں ،ان کا وجود اس طرح ہوتا ہے کہ وہ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں ۔اس روحی اور نفسیاتی جذب و دفع کا سبب ممکن ہے ایک مادی چیز،ایک شخص یا ایک عقیدہ یا فکرونظر ہو ۔کبھی کوئی منظر اتنا اچھا اور دلکش ہوتا ہے کہ بے اختیار آپ کو اپنی طرف کھینچتا ہے اور اگر چہ جسمانی لحاظ سے آپ اس کے نزدیک نہیں ہوتے ہیں اور اپنی جگہ پر کھڑے رہتے ہیں؛ لیکن آپ کی پوری توجہ اور حواس کو اپنی طرف معطوف کرلیتاہے، اور آپ اس کو دیکھنے میں غرق ہو جاتے ہیں؛ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کانپھاڑنے والی آواز یا ناقابل برداشت منظرکو دیکھ کرچاہتے ہیں کہ جتنی جلدی ممکن ہو اس سے دور ہو جائیں ۔

ایک انسان کی شخصیت کا جاذب ہونابھی اس معنی میں ہے کہ ظاہری اور جسمانی خصوصیات کے علاوہ اس کے اندر اخلاقی اور روحانی صفات بھی موجو د ہوں جو کہ اس کی طرف دوسرے لوگوں کی رغبت اور کشش کا سبب بنیں ؛ جولوگ با ادب چال ڈھال رکھتے ہیں اورلوگوں سے خوش اخلاقی سے ، ہنستے ہوئے چہرے اور خلوص و محبت کے ساتھ ملتے ہیں وہ لوگوں کے دلوں میں بس جاتے ہیں اور سبھی لوگ ان کو دوست رکھتے ہیں اور ان کے ساتھ ملنا جلنا اور ان سے قریب رہنا چاہتے ہیں؛ لیکن جو لوگ بے ادب ،برے اخلاق کے مالک اور خود خواہ ہوتے ہیں ایسے افراد گویا اپنے کو لوگوں سے دور رکھتے ہیں اور اس بات کا سبب بنتے ہیں کہ لوگ ان سے دور رہیں ؛لیکن جس وقت جاذبہ اور دافعہ کی بات کسی انسان سے متعلق ہو تو اس بات کی طرف توجہ رکھنی چاہئے کہ اس وقت یہ مسئلہ کلچر اورماحول کے تابع ہوتا ہے یعنی ممکن ہے کہ بعض خصوصیات کو کسی ایک سماج یا معاشرہ میں اچھی نظر سے دیکھاجاتاہولیکن وہی خصوصیات دوسرے معاشرہ میں کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں بلکہ انھیں بری نظر سے دیکھاجاتاہے اب ظاہر ہے کہ جو شخص ان خصوصیات کا مالک ہوگا وہ پہلے معاشرہ کے نزدیک ایک جاذب وپر کشش شخصیت شمار کیا جائے گا نیزلوگوں کی نظروں میں پسندیدہ ہوگا اور لوگ اس کا احترام کریں گے لیکن وہی شخص دوسرے کلچر اور سماج میں معمولی انسان بلکہ قابل نفرت ہوگا ؛بہر حال میرے عرض کرنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ ایک انسان کی شخصیت میں جو جاذبہ یا دافعہ ہوتاہے وہ سماج کے ماحول اورتہذیب و ثقافت کے اعتبار سے فرق رکھتا ہے ۔بہر حالیہ مسئلہ ایک جدا گانہ اور مستقل بحث ہے جس کو اس وقت ہم بیان نہیں کریں گے ۔

یہاں تک ہم نے جو توضیحات پیش کیں ان سے جاذبہ اور دافعہ کا مفہوم کسی حد تک روشن ہوگیا ؛لیکن ہماری بحث کا موضوع ''اسلام میں جاذبہ اور دافعہ ہے'' لہذٰا ہماری مراد ''اسلام '' سے جو کچھ بھی ہے اس کو واضح ہونا چاہئے، ہماری نظر میں عقائد اور قواعد و احکام کے مجموعہ کا نام اسلام ہے اس میں اعتقادی اور اخلاقی مسائل بھی اور فردی قوانین اور اجتماعی قوا نین بھی شامل ہیں؛ جس وقت ہم کہتے ہیں کہ اسلام ایسا ہے اور اسلام ویسا ہے توہماری مراد اسلام سے یہی اعتقادات اور اس کے قواعد و احکام ہیں؛ اس بحث میں جب ہم یہ کہتے ہیں'' اسلام میں جاذبہ اور دافعہ'' تو اس وقت ہماری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلام کے اعتقادی اور اخلاقی قواعد و اصول میں نیز اس کے تمام احکام قوانین میں پائے جاتے ہیں ۔ عقائد کے حصہ میں اسلام کا جاذبہ رکھنا اس معنی میں ہے کہ اسلامی عقائد انسان کی حقیقت پسند فطرت کے موافق ہیںیعنی وہ عقائد جو کہ حقائق ہستی کی بنیاد پر استوار ہیں چونکہ انسان کی فطرت حقیقت کو چاہتی ہے اور یہ عقائد انسانی فطرت کے مطابق ہیں لہذا یہ انسان کے لئے جاذبہ ہو سکتے ہیں ۔ بہر حال وہ جاذبہ اور دافعہ جو کہ اسلامی عقائد سے مربوط ہیں فی الحال ہماری بحث میں شامل نہیں ہیں یہاں پراس جاذبہ اور دافعہ کی بحث زیادہ اہم ہے جو کہ اسلامی احکام اور اخلاق سے مربوط ہیںخاص کر وہ جاذبہ اور دافعہ جو اسلام کے دستوری اور تکلیفی احکام سے مربوط ہیں،اور ہم زیادہ تر اس بات کو دیکھیں گے کہ کیا تمام قواعد و احکام اسلامی انسان کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟

کیا اسلام کے بارے میں دافعہ کا تصوّرممکن ہے ؟

ممکن ہے یہ سوال ذہن میں آئے کہ اگر تمام اسلامی معارف و احکام؛ انسانی فطرت اور طبیعت کے مطابق بنائے گئے ہیں لہذ اٰ طبعی طور پر اس کے لئے جاذبہ ہونا چاہئے پس اس کے لئے دافعہ فرض کرنا کیسے ممکن ہے ؟ !

اس کا جواب یہ ہے کہ انسان فطری طور پر حقیقت کا متلاشی اور بلندیوں کا خواہاں نیز اچھی چیزوں کا طالب ہے ؛لیکن اس کے علاوہ بہت سے شہوانی اور فطری امور بھی انسان میں پائے جاتے ہیں کہ بہت سے مقامات پر ان مختلف فطری اور شہوانی امور کے درمیان تزاحم اور اختلاف پیدا ہوتا ہے یاایک دوسرے کو دور کر دیتا ہے ۔یااس بحث کے خلط اور اشتباہ سے بچنے کے لئے دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ انسان کی مادی اور حیوانی خواہشات کو جذبہ شہوت وخواہش کا نام اور اس کی دوسری تما م خواہشوں کو فطرت کا نام دیا گیا ہے ،بہت سے مقامات پرفطرت اور خواہشوں کے درمیان نا ہماہنگی پائی جاتی ہے، شہوت اور خواہش صرف اپنی تکمیل چاہتی ہے انصاف و عدالت کو نہیں دیکھتی ہے، بھوکا پیٹ آدمی صرف روٹی کھانا چاہتا ہے حلال و حرام ، اچھا ،برا ،اپنا مال ہے یا غیر کا ،اس سے اس کو مطلب نہیں ہے چاہے اس کو حلال و جائز روٹی دیں یا حرام و نا جائز اس کو پیٹ بھر نے سے مطلب ہے، انسان کی آرام پسند طبیعت پیسیے اور اپنی آرام دہ زندگی کی تکمیل کے پیچھے لگی رہتی ہے یہ پیسہ چاہے حلال طریقے سے حاصل ہو یا حرام ذریعہ سے اس کے لئے سب برابر ہے ۔

لیکن انسان کی فطرت انصاف کی طالب اور امانت و عدالت کے موافق ہے نیز حق کو غصب کرنے اور ظلم و خیانت سے بیزار ہے ،اس عدالت طلب اور ظلم سے گریزاں فطرت کے بر خلاف کبھی کبھی ایسا دیکھنے میں آتا ہے کہ اپنی خواہشات نفسانی کی تکمیل اور مادی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے صرف خیانت اور ظلم و ستم کا سہارا لینا پڑتا ہے؛ یہی وہ مقام ہے جہاں پر انسان اگر حقیقی کمال کو چاہتا ہے تو اس کو مجبوراً ان خواہشات اور لذتوں سے اپنے کو بچانا ہوگا ؛بعض چیزوں کو نہ کھائے ،نہ پئے،نہ اوڑھے پہنے،نہ دیکھے اورنہ سنے ؛خلاصہ یہ کہ اپنے کو محدود و مقید رکھے ۔ اسلام بھی انسان کو حقیقی کمالات تک پہونچانا چاہتا ہے؛ لہذا ان جگہوں پر فطری پہلو کو اختیار کرتا ہے اور خواہشات نفسانی اور مادی ضروریات کو محدود کرتا ہے؛ ان مقامات پر جو لوگ اپنی خواہشات نفسانی پر کنٹرول نہیں رکھتے ہیں ؛یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ حیوانیت ان پر غالب رہتی ہے تو طبعی اور فطری بات ہے کہ بعض اسلامی احکام ان کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے ہیں بلکہ دافعہ رکھتے ہیں ،اسلام نے ایک مکمل دستور دیا ہے جو کہ فطرت اور خواہش دونوں کے مطابق ہے اور اس مفہوم کی آیات اور روایات بہت کثرت سے پائی جاتی ہیں، اللہ تبارک وتعالیٰ قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے :



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next