اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



..............

(١) سورہ بقرہ :آیہ ١٠٤۔

کرنا ماہیت کے لحاظ سے سخت اور خشن کام ہے لیکن کبھی بحث فاعل سے مربوط ہوتی ہے فاعل وہ ہے جو کہ اس مرغ یا بھیڑکا سر جدا کرنا چاہتا ہے، اب اس کام کو ممکن ہے وہ بے رحمی اور خشونت کے ساتھ انجام دے؛ یا یہی کام وہ بغیر خشونت کے انجام دے ہماری اس وقت بحث فاعلی خشونت میں ہے نہ کہ فعلی خشونت میں ؛یعنی احکام اسلامی کو جاری کرنے میں ہمیں سخت اور خشن چہرہ ظاہر نہیں کرنا چاہئے؛ ہم کو رسول اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)کی سیرت دیکھنا چاہئے آپ عالمین کے لئے رحمت تھے اور اخلاق حسنہ رکھتے تھے آپ اخلاق کے بلند مرتبہ پر فائز تھے لیکن پھر بھی آپ اپنی جگہ پر کفاّر اور دشمنوں کے مقابلہ میں شدّت وقاطعیت اختیار کرتے تھے ؛لیکن کبھی بھی آپ کے فعل میں خشونت کو نہیں دیکھا گیا ۔

خلاصہ ، سوال یہ ہے کہ جب لفظ خشونت تمام زبانوں میں بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اس سے منفی اثر پڑتا ہے تو بے وجہ ہم اس کے استعمال پر زور دیتے ہیں اور دافعہ ایجاد کرکے دشمن کے لئے غلط فائدہ اٹھانے کا راستہ ہموار کر رہے ہیں ؛جب کہ اس کی جگہ پر دوسرا لفظ استعمال کر کے ہم اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔

 

جواب : البتہ اس سوال کے جواب میں جو مطالب بیان کئے جائیںگے وہ اسی خشونت کے سلسلے میں جو ٹیلیویژن پر مناظرہ ہوا تھا اس میں بیان کئے جا چکے ہیں،اور جو دوست ان مباحث کا مطالعہ کرناچاہتے ہیں وہ ہفتہ نامہ'' پرتو ''میں ملاحظہ کر سکتے ہیں اس میںیہ مطالب چھپ چکے ہیں، اور یہاں پر جتنا ممکن ہے اس کی توضیح کچھ اس طرح ہے :

کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ ہماری تہذیب اور کلچر میں کیا معنی رکھتا ہے اور کبھی بحث اس میں ہے کہ یہ لفظ مختلف عرف، سماج او رتہذیب میں کس معنی میں استعمال ہوتا ہے؛ اگر کوئی یہ کہتا ہے کہ ہمارے کلچر میں خشونت کا لفظ بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے تو ظاہر سی بات ہے کہ پہلے رحم کے معنی کو واضح کریں تاکہ اس کے مقابلہ میں جو لفظ بے رحمی اور خشونت کاہے اس کے معنی و مفہوم واضح ہوجائے ۔ اگر چہ ہماری تہذیب میں ممکن ہے کہ خشونت کامفہوم اکثر بے رحمی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن عرف اور دوسرے کلچر میں ایسا نہیں ہے جیسے حقوقی اور سیاسی اصطلاح میں خشونت کے معنی یہ نہیں ہیں یہ لفظ بنیادی طور پر عربی ہے عربی کی کسی لغت میں بھی کسی نے خشونت کے معنی میں بے رحمی نہیں لکھا ہے، بلکہ خشن یعنی سخت ودرشت کے معنی میں ہے خشونت یعنی سختی اوردرشتی، اس کے مقابلہ میںلےّن کالفظ استعمال ہوتا ہے جو کہ نرم کے معنی میں ہے لہذٰا عربی لغت کے مطابق خشونت رحم کے مقابل نہیں ہے تا کہ بے رحمی کے معنی میںہو ،بلکہ یہ محکم اور سخت کے معنی میں ہے جو کہ لینہ اور نرمی کے مقابل ہے ۔ البتہ عام طور سے یہ ہوتا ہے کہ جب مفہوم طبیعی اور مادی علوم سے انسانی اور اجتماعی علوم کی طرف منتقل ہوتا ہے تو اس کے نئے مصداق ہو جاتے ہیں، لیکن ہر حال میں پھر بھی لغوی معنی کی اصل اسی طرح باقی رہتی ہے ۔

اور جو سوال میں یہ کہا گیا ہے کہ یہ لفظ اصلاً قرآن میں استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی بہت کم آیا ہے اور ہر حال میںقرآنی اور روائی اعتبار سے اس کے لئے کوئی فضیلیت بیان نہیں کی گئی ہے تو اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے ۔ اگر چہ خود قرآن میںمادہ ''خ ش ن ''ا ور خشونت کا لفظ نہیں آیا ہے لیکن اس کے ہم معنی لفظ استعمال ہوا ہے اور ادبیات اور زبان کے دستور کے مطابق ہم اس بات کا حق رکھتے ہیں کہ ہم معنی اور مرادف لفظ کو ایک دوسرے کی جگہ استعمال کر سکتے ہیں؛ لہذٰا اگرلفظ خشونت کے مترادف اگر کوئی لفظ قرآن میں آیا ہو تو یہ دعویٰ کہ قرآن میں خشونت کے مفہوم کو بیان نہیں کیا گیا ہے ،صحیح نہیں ہے؛ خشونت کے مترادف (ہم معانی )لفظ جو قرآن کریم میں آئے ہیں وہ لفظ ''غلظت'' اوراس کا مادہ ((غ ل ظ ))ہے، سورہ توبہ میں ارشاد ہو رہا ہے :''ولیجدوا فیکم غلظة''(١) اور وہ (کفاّر ) تم میں خشونت اور غلظت کا احساس کریں، یا قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ''یا ایھا النبیّ جاھد الکفاّر والمنافقین و اغلظ علیھم و ماوٰھم جھنّم ''(٢) اے نبی !کافروں اور منافقوںسے جہاد کیجئے اور ان کے لئے سخت رویہ اپنائیے اور ان لوگوں کی جگہ جہنم ہے ۔ یہ آیہ قرآن مجید میں دو بار، سورہ توبہ اور سورہ تحریم میں آئی ہے ۔ یا دوسری جگہ سورہ آل عمران میں فرماتا ہے : '' فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو کنت فظّاً غلیظ القلب لانفضّوا من حولک '' (٣)اے پیغمبر! یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان (١)سورہ توبہ :آیہ١٢٣۔

..............

(٢)سورہ تحریم :آیہ ٩۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next