اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



بہت سے اعمال ایسے پائے جاتے ہیں کہ اس کا نفع یا نقصان ایک شخص سے کر پورے معاشرہ پر پڑتا ہے البتہ یہ تاثیر کبھی بلا واسطہ (ڈائریکٹ)ہوتی ہے اور کبھی بالواسطہ ہوتی ہے،بلا واسطہ تاثیر اس طرح کہ مثلاً کسی کو مارا پیٹا جا رہا ہو یا اس پر ظلم ہو رہا ہو؛ معاشرہ پر لوگوں کے عمل کی بالواسطہ تاثیر کے مصداق اور اس کے دائرہ کے متعلق اختلاف رائے کا ہونا ممکن ہے لیکن جو چیز مسلّم ہے اور اس میں کوئی بھی شک نہیں ہے وہ یہ کہ اگر چہ اس عمل کا اثر ظاہراً بعض جگہوں پرمعاشرہ کے تمام افراد پر نہ پڑتا ہو لیکن غور و فکر کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے مثلاً برے کام کو اگر کوئی لوگوں کے سامنے انجام دے، تو یہ ایک بالواسطہ طور پر سکھانے کا طریقہ ہے اور یہ اس بات کا سبب بنتا ہے کہ دھیرے دھیرے اس کا برا ہونا ختم ہو جاتا ہے، اگر ماں اور باپ بچوں کے سامنے جھوٹ بولیں تو گویا یہ بالواسطہ طور پر ان کو سکھاتے ہیںکہ جھوٹ بولنا کوئی قباحت نہیںرکھتا ہے اسی بالواسطہ تاثیر کی وجہ سے( جوکہ معاشرہ پر پڑتی ہے) اسلام نے تجاہر بہ فسق یعنی علی الاعلان گناہ کرنے کو منع کیا ہے اور بعض افعال کے متعلق یہ کہا ہے کہ اسکو علانیہ لوگوں کے سامنے انجام نہیں دے سکتے؛ یعنی اگر ایسے اعمال کو کسی نے تنہائی مین چھپ کر انجام دیا ہے تو صرف گناہ کیا ہے؛ لیکن حقوقی طور پراس نے کوئی جرم نہیں کیا ہے اور حکومت اسلامی بھی اسکو کچھ کہنے والی نہیں ہے؛ لیکن اگر اسی عمل کو وہ لوگوں کے سامنے کھل کر انجام دیتا ہے تو وہ مجرم شمار کیا جائیگا اور اسکو سزا ہو گی ۔

بہر حال وہ اعمال جو کہ اجتماعی تاثیر رکھتے ہیں اور انکے انجام دینے سے لوگوں کے حقوق پر تجاوز ہوتا ہے انکی نسبت اگر انکی تاثیر بلا واسطہ ہوتی ہے تو اس صورت میں دنیا کے تمام عقلاء کہتے ہیں کہ ایک اجتماعی قوت یعنی حکومت تا کہ ان غلط کاموں کو جن کو دوسرے کے حقوق پر تجاوز کہا جاتا ہے، روک سکے ،یہ مطلب اسلام اور دین الہیٰ سے مخصوص نہیں ہے ۔ ان موارد کے علاوہ اگر کسی جگہ کوئی عمل سماج کے لئے معنوی ضرر کا باعث ہو تو اسلام نے حکومت کو اجازت دی ہے بلکہ اس کو مکلف کیا ہے کہ اس میں دخل دے اور اس کام کو روکے؛ اور اسلام کا یہ کام ایک بنیادی اور جدا گانہ حیثیت رکھتا ہے بر خلاف دوسرے نظاموں جو کہ ڈموکراسی اورلیبرل نظام پر قائم ہیں جمہوری اور لیبرل نظام حکومت میں مثلاً اگر کوئی نیم عریاں یا نا مناسب لباس پہن کر سڑک پر آتا ہے تو یہ لوگ کہتے ہیںکہ یہ اس انسان کی خاص رفتارہے اور اس کا ذاتی معاملہ ہے اوراس کو کوئی کچھ کہہ نہیں سکتا ، اس میں وہ پوری طرح سے آزاد ہے ؛لیکن اسلام نے اس عمل سے منع کیا ہے اس نے کہا کہ یہ عمل معنوی و تربیتی اعتبار سے تباہ کن اثرات کا حامل ہے ،اگر کوئی شخص ایسے عمل انجام دیتا ہے تو اسلام نے اس کو خطا کار کہا ہے اور اس کے ساتھ مجرم کے عنوان سے سلوک کرنے کا حکم دیا ہے ۔

جزائی اورکیفری قوانین، اجتماعی نظم قائم کرنے کا سبب

وہ اعمال جو کہ اجتماعی خرابیاں رکھتے ہیں اور دوسروںکے حقوق کی پامالی کا سبب بنتے ہیں ان کو ہر حالت میں روکا جانا چاہئے اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور ظاہر سی بات یہ ہے کہ حکومت ان کاموں کو انجام دینے کے لئے قانون بنانے کی محتاج ہے وہ قوانین جو کہ ایک معاشرہ اور سماج میں ہوتے ہیں، ا ن کی دو قسم ہے: (١) مدنی قانون (٢) جزائی قانون

مدنی قانون (مدنی حقوق )لوگوں کے حقوق اور ان کی آزادیوں کو بیان کرتا ہے جیسے تجارت،شادی بیاہ،طلاق،میراث اور ان جیسے قانون ۔

جزائی قانون(کیفری قانون) اس حکم کو بیان کرتا ہے جو مدنی قانون کی خلاف ورزی سے پیدا ہوتا ہے یعنی جب مدنی قانون نے لوگوں کی آزادی اور حقوق کو بیان کر دیا ؛اگر کوئی شخص اس قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو جزائی قانون اس کی سزا کو بیان کرتا ہے اور تمام حکومتوں کا ایک اہم قا نون یہی جزائی قانون ہے ؛حکومت اس قانون کو بناتی ہے اور اس کو لاگو بھی کرتی ہے؛ اس کی اصل وجہ اجتماعی نظم کو برقرار رکھنا اور اس کو جاری رکھنا ہے اور وہ سب اسی جزائی قانون سے مربوط ہے؛ اگر حکومت صرف مدنی قانون کے بنانے پر اکتفا کرے اور صرف لوگوں کے حقوق کو بیان کرے اور جب لوگ اس قانون کی خلاف ورزی کریں،ان کے لئے کوئی قانون نہ ہو تو ہم بہت سے مواقع اس مدنی قانون کی مخالفت اور خلاف ورزی کا مشاہدہ کریں گے ۔ہم خود اپنی آنکھوں سے اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ اگرراہنما پولیس وغیرہ اور جرما نہ نہ ہو تو بہت کم ہی لوگ لال بتیّ،ممنوعہ جگہ پر گاڑیوںکا پارک کرنا ، یک طرفہ راستے سے نہ گذرنا ان سب قوانین کی رعایت کوئی بھی نہیں کرے گا، جو چیز چوروں اور قاتلوںکو ان کے کام سے خوف زدہ کرتی ہے زندان اور قتل کا ڈر ہے اگر یہ ڈر نہ ہو تو لوگوں کے مال و دولت کو آرام سے لوٹ لیں اور ان لوگوں کو قتل کردیں ،بس اسی وجہ سے حکومتوں کا ایک سب سے اہم اور بنیادی کام جزائی قانون کا بنانا اور اس کو جاری کرنا ہے اس قانون کے بغیر اجتماعی نظم اور حکومت کا نظم و نسق کوئی معنی نہیں رکھتا ہے ۔

 

دافعہ، جزائی قوانین کی فطری ماہیت ہے

یہ فطری بات ہے کہ جزائی قانون کے لاگو ہونے کے لئے دافعہ کا ہونا ضروری ہے ؛کیونکہ کوئی بھی قید،کوڑے اور جرمانے سے خوش نہیں ہوتا ہے اور یہ سب کام سخت اور درشت ہیں چاہے یہ سب مسکراہٹ اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیئے جائیں؛ اگر کوئی انسان غلط کام کئے ہو اس سے بہت ہی ادب اور مسکراہٹ کے ساتھ کہا جائے مہربانی کرکے پندرہ سال اس قید خانہ میں محبوس ہوجایئے؛ یا یہ کہیں کہ ذرا مہربانی کرکے اپنے جسم سے کپڑے کو ہٹایئے تاکہ اس جسم پر سو کوڑے لگائے جائیں، یا یہ کہا جائے مہربانی کر کے اپنی گردن کو آگے بڑھائیے تا کہ اس کو کاٹا جائے تویہ مسکراہٹ اور احترام کسی چیز کو نہیں بدلے گا اور جن کاموں میں ذاتی طور پر خشونت اور نفرت موجود ہے ان کے اثر کو نہیں بدلے گا ؛کس کو یہ آرزو ہے کہ پندرہ سال بیوی،بچے اور دوستوں سے دور قید خانوں میں جاکر زندگی بسر کرے؟ اگر ایک پولیس افسربہت ہی اچھے اخلاق،نہایت ادب اور عزت و احترام کے ساتھ ہم کو صرف لال بتی سے گذرنے کی وجہ سے نا قابل معافی پانچ ہزارروپئے کا جر مانہ کر دے تو ہم اس بات پر ناخوش ہوتے ہیں؛ اگر چہ ہم زبان سے کچھ نہ کہیں لیکن دل ہی دل میں ضرور اس کو برا بھلا کہیں گے اب اگرجرمانہ پانچ لاکھ روپئے ہو یا قید خانہ کی سزا ،کوڑے اور جسمی اذیت کے ساتھ ہو تو ایسی جگہوں پر دافعہ کا پایا جانا لازمی ہے؛ بہر حال کوئی بھی انسان جزائی قوانین میں خشونت اور ذاتی دافعہ کا انکارنہیں کر سکتا ہے اور جیسا کہ میں نے اس سے پہلے بھی عرض کیا ان جیسے قوانین کے بغیر حکومت کا ہونا بھی ناممکن ہے؛ لہذٰاساری حکومتیں لازمی اورفطری طور پر دافعہ اور خشونت رکھتی ہیں ۔

البتہ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ عرف عام میں خشونت کا اطلاق اس جگہ پر ہوتا ہے جہاں جسمانی اذیت اور تکلیف ہو مثلاً کسی کا ہاتھ کاٹا جائے؛ یا کسی کو مارا جائے لیکن پھر بھی ہر حال میں جہاں جرمانہ، قید خانہ اور اس جیسی سزائیں ہیں،اگروہاں خشونت کا اطلاق نہ ہوتا ہو تو کم سے کم تھوڑا بہت دافعہ ضرورپایا جاتا ہے اور اکثر لوگ اپنے متعلق اس طرح کی سزائوں سے راضی اور خوش نہیںہوتے ہیں؛ لہذٰا حکومت، جزائی قانون کے بغیر ممکن نہیں ہے اور جزائی قوانین ہمیشہ خشونت اور دافعہ کا پہلواپنے دامن میں رکھتے ہیں ۔ اور حکومت بغیر دافعہ کی طاقت کے ،صرف قوت جاذبہ رکھتی ہو ایسا نہیں ہو سکتا ہے اور بغیر اس کے حکومت بیکار ہے، کیونکہ حکومت کا ایک اصلی اور اہم مقصد یہ ہے کہ اگر کوئی انسان قانون کو اختیار کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لئے تیار نہیں ہے تو اس کو زبر دستی اس کام کے لئے مجبور کیا جائے، تاکہ وہ قانون پر عمل کرے؛ البتہ یہ زبر دستی اور سختی بہت سے مراحل اور مراتب رکھتی ہے کبھی جر مانہ ہے ،کبھی قید خانہ، کبھی جلا وطنی اور کبھی کو ڑے مارنا ہے اور سب سے آخری حد قتل اور پھانسی ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next