اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



اور جو یہ کہا گیا کہ ابھی مغربی لوگوں نے اسلام کے متعلق کچھ نہیں سنا ہے اور وہ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ انھیں اسلام کوپہچنوائیں، تو اس کے جواب میں بھی ہم کہیں گے کہ یہ بات بھی صحیح نہیں ہے ۔آج دنیا کی بولی جانے والی تمام اہم زبانوں میں قرآن کا ترجمہ ہو چکا ہے اور دنیا کے لوگ اس وسعت کے ساتھ جو کہ تمام اخبارات ،ریڈیو ،ٹیلی ویژن،سٹلائیٹ اور، انٹر نیٹ وغیرہ رکھتے ہیں، حقیقت میں تمام چیزیں ان کے ہاتھوں میں ہیں اور ہمارے لئے یہ کہنا ممکن نہیں ہے کہ ہم کہیں وہ لوگ اسلام سے ناواقف ہیں ؛خاص طور سے وہ وسیع تبلیغ جو آج کے اخبار اور رسالے خصوصاً دنیا کے صہیونی اور یہودی لوگ اسلام کے خلاف کر رہے ہیں؛ آج آپ دنیا کے کسی حصّہ میں چلے جائیں اسلام کو اس عنوان سے پیش کرتے ہیں کہ اسلام نے عورتوں کے حق کا خیال نہیں کیا ہے اور اسلام مردوں اور عورتوں کے درمیان فرق کا قائل ہے؛ میں خود دنیا کے بہت سے ملکوں میں گیا ہوں اور جنوب مغرب میں ایک ملک چیلی ہے وہاں بھی گیا ہوں اور یہی بحث جس کی طرف اشارہ کیا گیاہے پیش ہوئی تھی ا و ر میں نے خود اس کے بارے میں ریڈیو ا و ر ٹیلی ویژن پر انٹر ویو دیا تھا ۔خلاصہ یہ کہ اگر ہم یہ کہیں کہ آج دنیا میں ایسے لوگ پائے جاتے ہیں جو کہ اسلام کے بارے میں کچھ نہیںجانتے اور ہم نئے سرے سے ان کے سامنے اسلام کو پیش کریںتو یہ کہنا صحیح نہیں ہے ؛لیکن پھر بھی اگر ایسے لوگ پائے جاتے ہوں تو ایسا نہیں ہے کہ ہم سب سے پہلے ان سے یہ کہیں کہ اسلام کہتا ہے کہ چور کے ہاتھ کاٹے جائیں یا یہ کہ زنا کرنے والے کو تازیانہ مارا جائے یا کبھی اس کوسنگسار کرنے کا حکم دیتا ہے اور اس جیسے مسائل کو اس کے سامنے بیان کریں ،بلکہ یہ فطری بات ہے کہ سب سے پہلے اسلام کے مبانی اور اصول جیسے توحید ،نبوت اوور قیامت وغیرہ کو پیش کریں جب دھیرے دھیرے ان کا ایمان محکم ہو جائے تو ایک کے بعد ایک اس کے سامنے دوسرے مسائل کی وضاحت کریں ۔ یہاں تک کہ شروع میں ہم اسی بات پر اکتفا کریں کہ وہ کلمہ شہادتین کو پڑھ لیں اور مسلمان ہو جائیں یا تمام اسلامی احکام میں ان سے کہیں کہ وہ صرف نمازکی پابندی کرے ۔خلاصہ، شروع میں اس بات کی کوشش کریں کہ اسی قدران کو اسلام سے قریب کریں اور پھر دھیرے دھیرے جتنا ان کے لئے عمل کرنا ممکن ہو ان سے کہیں کہ اس پر عمل کرے، البتہ یہ تدریجی تبلیغ کی سیاست دوسرے ملک اور وہاںکے لوگوں سے متعلق ہو سکتی ہے لیکن تہران،اصفہان اور شیراز کے لوگوں سے مربوط نہیں ہے ۔

جو کچھ مختصر طور پر یہاں کہا جا سکتا ہے وہ یہ کہ ہم اس بات سے قطع نظر کہ ایسے حالات اور واقعات پائے جاتے ہوں تو کلی حکم یہ ہے کہ اگر کسی جگہ یا کسی وقت خاص حالات میں ایک حکم کا جاری کرنا اسلام اوراسلامی معاشرہ کے لئے ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہو تو یہاں پر ولی امر مسلمین اس بات کا حق رکھتا ہے کہ اپنی ولایت کو استعمال کرتے ہوئے عنوان ثانوی (جو کہ احکام اسلامی میں پایا جاتا ہے ) کے مطابق حکم دے، کہ کچھ دنوں کے لئے یہ پہلا حکم اٹھا لیاجا رہا ہے ۔ البتہ یہ چیز صرف ولی امر مسلمین کے اختیار میں ہے اور کوئی دوسرا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا ہے ۔لیکن جس نکتہ کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ کہ یہ حکم جو وقتی طور پر کسی مصلحت کی بنا پراٹھا لیا جا رہا ہے اس میں اوراس بات میں فرق ہے کہ کسی اسلامی حکم کے سرے ہی سے منکرہو جائیں اور یہ کہا جائے کہ یہ حکم اسلام میں پایا ہی نہیں جاتا یا یہ کہیں کہ یہ حکم آج تک اسلام میں تھا لیکن ہم آج سے اس بات کا اعلان کرتے ہیں کہ اسلام کا حصّہ نہیں ہے ۔ ان دونوں میں بہت فرق ہے ایک حکم کا کچھ دنوں کے لئے معطّل ہونا اسلام کے جزائی احکام سے مخصوص نہیں ہے ؛ مثلاً ہم خود اس بات کے گواہ ہیں کہ حضرت امام خمینی نے کچھ مصلحتوں کی بنیاد پر حج کو(جو کہ اسلام کی ایک اہم عبادت ہے) تعطیل کیا تھا، کسی حکم کی وقتی تعطیل ایک چیز ہے اور اس حکم سے اصلاً انکار ایک دوسری چیز ہے ۔ یہ ممکن ہے کہ کہا جائے یہ حکم کچھ مصلحتوں کی بنا پرفی الحال جاری نہیں ہوگا ؛لیکن اگر یہ کہا جائے کہ اسلام سنگ ساری کا حکم ہی نہیں رکھتا اور یہ حکم فقط عرب کے اس زمانہ کے غیر متمدن نیم وحشی انسانوں کے لئے تھا توایسی بات اسلام کے ایک حتمی حکم سے انکار اور اس کانسخ کرنا ہے کہ جس کا کسی کو یہاں تک کہ رسول اکر م(صلی الله علیه و آله وسلم)کو بھی حق حاصل نہیں ہے ۔

یہاں پر ایک تاریخی نمونہ کا ذکر جو کہ مطلب کو واضح اور ثابت کرنے میں مفید ہے مناسب ہوگا۔

اسلام کے ابتدائی ایام میں جب کہ مسلمان بہت ہی تنگی اور سختی میں زندگی بسر کررہے تھے ، طائف کے لوگ آئے اور ان لوگوں نے پیغمبر اسلام سے ایک پیشکش کی اور کہا ہم مسلمان ہونے کو تیار ہیں اور آپ کے ساتھ معاہدہ کرتے ہیں کہ آپ کے ساتھ تعاون کریں گے ،لیکن ایک شرط ہے ۔ہم اس بات کے لئے حاضر ہیں کہ شہادتین (کلمہ ) پڑھیں ؛بتوں کو نہ پوجیں حتیّٰ زکواة بھی دیں؛ لیکن ہم کو صرف ایک کام سے معاف کر دیجئے اور وہ سجدہ کرنا ہے ۔ ہم اس کام کو جو آپ لوگ کرتے ہیں اور زمین پر جھکتے اور سجدے کرتے ہیں، نہیں کر سکتے ہیں، اگر آپ ہم لوگوں کو سجدہ کرنے سے معاف کر دیجئے تو ہم اس بات کے لئے تیار ہیںکہ بت پرستی کو چھوڑ دیں اور اس کے علاوہ دوسرے برے کام کو بھی ترک کردیں گے اور آپ کے ساتھ عہد کرتے ہیں کہ جنگوں میں آپ کا ساتھ دیں گے ۔

آپ ذرا شرائط کو ملاحظہ کریں ؛ مسلمانوں کی تعداد بہت کم ہے اور ان کو طاقت کی ضرورت ہے؛ ان کی مالی قوت کمزور ہے اور انھیں مالی تعاون کی ضرورت ہے اور طائف کے لوگ اکثر امیر اور دولت مند ہیں؛ خلاصہ یہ کہ ایک بھاری تعداد خود اپنی مرضی اور خوشی سے اس بات کے لئے حاضر ہے کہ ایک قدم نہیں بلکہ سو قدم اسلام سے قریب ہو جائیں گے لیکن صرف ایک بات کہ ظاہری طور پر معمولی سی چیز ہے اس کو قبول نہ کریں گے ۔ قرآن اس جگہ فرماتا ہے: ''لو لا ان ثبتناک لقد کدت ترکن الیھم شئیاً قلیلا '' (١)یعنی اگرہماری توفیق خاص نے آپ(بشری طور پر) کو ثابت قدم نہ رکھا ہوتا تو آپ کچھ نہ کچھ ان کی طرف مائل ضرور ہو جاتے؛ اگر ان کی طرف جھک جاتے توکیا ہوتا؟اس کا جواب بہت ہی سخت لہجہ کے ساتھ اس کے فوراً بعد ہے : ''اذاً لا ذقناک ضعف الحیواة و ضعف الممات ثم لا تجد لک علینا نصیراً '' (٢)اور پھر ہم زندگانی دنیا اور موت دونوں مرحلوں پر دہرا مزہ چکھاتے اور آپ ہمارے خلاف کوئی مدد گار اور نصرت کرنے والا نہیں پاتے ۔ اگر تھوڑا سا بھی جھکائو اور تمایل پیدا ہوتا ، تو دنیا اور آخرت میں دوسروں کے مقابلے دو گنا عذاب کرتے اور آپ کسی کو اپنی مدد کے لئے نہیں پاتے ۔

میں اور آپ تو اپنی جگہ، دین کے انکار کا مسئلہ اور اس کے احکام میںکوتا ہی اور سستی ایک ایسی چیز ہے کہ پیغمبر کی طرف سے بھی ممکن نہیں ہے اور اگربفرض محال ایسی چیز انحضرت کی طرف سے ہو بھی جائے تو خدا وندعالم کی طرف سے اس کی باز پرس بہت ہی سخت ہے اور اللہ اس مسئلہ میں کسی سے کوئی تکلف نہیں کرتا۔

..............

(١) سورہ اسریٰ :آیہ ٧٤۔

(٢) سورہ اسریٰ :آیہ ٧٥۔

اور وہ چیز جو کہ سوا ل میں دیت کے برابر کوئی دوسری چیز معین کرنے کی تھی اس کے بارے میں

بھی ہم کہیں گے کہ اس چیز کو ہم نے اپنی جانب سے نہیں بنایا ہے ، بلکہ یہ مسئلہ خود روایتوں

میں آیا ہے اور شروع سے ہی روایتوں میں اس کوبیان کیا گیا ہے؛ اس زمانے میں بھی صرف

ا و نٹ معین نہیں تھا بلکہ او نٹ کے بدلے ، سونا چاندی جوکہ اس وقت کے پیسے تھے اور وہ لوگ اس کو دے سکتے تھے ۔

 



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30