اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



سوال میں فعلی اور فاعلی خشونت اور فعلی اور فاعلی حسن و قبح میں تفریق وتفکیک کی گئی ہے اور اسی طرح قاطعیت اور خشونت میں فرق کو قبول کیا گیا ہے، لیکن مثلاً اگر کوئی لال بتّی جلنے کے بعدعبورکرے اور پولیس اس کو گرفتار کرلے اور سلام و احوال پرسی کے بعدمسکراتے ہوئے ادب کے ساتھ اس سے کہے کہ آپ نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے لہذٰا پانچ ہزار روپئے آپ پر جرمانہ کیا جاتا ہے ،یہاں پر قاطعیت ہے خشونت نام کی کوئی چیز نہیں ہے، لیکن بحث اس میں ہے کہ جس خشونت کے ہم اسلام میں قائل ہیں وہ صرف قاطعیت نہیں ہے؛ بعض اعمال ماہیت کے اعتبار سے خشن ہیں اور ان کو قاطعیت کے ساتھ انجام دینے میں ہمیشہ ایک طرح کی خشونت پائی جاتی ہے ؛ جس وقت جلّادشمشیر اور تلوار کے ساتھ آتا ہے اور کسی کا سر جدا کرتا ہے اور خون کا فوّارہ جاری ہوتا ہے ، اس کام کی ماہیت ہی ایسی ہوتی ہے کہ اس کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام نہیں دیا جا سکتا ؛یہ منظر ہی ایسا ہے کہ بہت سے لوگ اس کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتے؛ اور اس منظر کو دیکھنے سے ہی ان کے چہرہ کا رنگ اڑ جاتا ہے،ہنسنا ،مسکرانا بھول جاتے ہیں یہاں تک کی بعض لوگ اس کو دیکھ کر بیہوش ہو جاتے ہیں ، اس وقت یہ کہنا کیسے ممکن ہے کہ خود اس کام کو انجام دینے والا صرف قاطعیت کے ساتھ لیکن مسکراہٹ اور مہربانی سے اس کو انجام دے ؟یہ فعل ہی در حقیقت خشن ہے اور جو شخص یہ انجام دیتا ہے وہ فطری طور پرخشن اور خشونت کا طرفدار شمار کیا جاتا ہے اور ان جگہوں پر فعلی اور فاعلی خشونت میں فرق پیدا کرنا نا ممکن ہے ۔

اس کے علاوہ جو لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں اس کا مورد اور مقام خشونت فاعلی نہیں ہے ( یعنی یہ بحث کام کرنے والے کی خشونت سے متعلق نہیں ہے )بلکہ ان کا اعتراض خشونت فعلی سے متعلق ہے ؛وہ لوگ کہتے ہیں کہ جو کام تم لوگ انجام دیتے ہو وہ کام خشن ہے اور اس کو نہیں کرنا چاہئے ۔ اگر ہم اس کام کو ہنسی خوشی اور کشادہ روئی کے ساتھ انجام دیں تو بھی مشکل حل نہیں ہونے والی ہے ؛بحث قاطعیت میں اور خشن نہ ہونے میں نہیں ہے بلکہ سارے اعتراضات انھیں مجازات اور سزائوں پر ہیں ۔اصل میںیہ سارے مطالب عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کی طرف پلٹتے ہیں ؛وہ حقوق جو عالمی انسانی حقوق کے منشور میں ہے اس کا ایک بند یہ ہے کہ جتنی سزائیں بھی خشونت کا سبب بنتی ہیں ان سب کو ختم ہونا چاہئے ۔ ان سزائوں میں سب سے واضح او رظاہر ی سزا جو ہے اور اس پر بہت زیادہ تاکید ہو رہی ہے قتل اور پھانسی کی سزا ہے اور اس جیسی سزائیں مثلاًہاتھ کاٹنا ،کوڑے مارنا اور دوسری سزائیں جو کہ جسمانی تکلیف کے ساتھ ہوں؛ آج جب انسانی حقوق کی گفتگو ہوتی ہے اور دنیا کے ممالک خاص طور پران کا سرغنہ امریکہ ہم مسلمانوں پر انسانی حقوق پامال کرنے کا الزام لگاتے ہیں ؛ ان لوگوں کا اعتراض یہ نہیں ہے کہ مجرموں کو پھانسی دیتے وقت یا ان کو کوڑا مارتے وقت مسکراتے کیوں نہیں اور سختی کیوں کرتے ہو ،بلکہ بات اصل میں ایسی سزائوں کے وجودکے بارے میں ہے کہ ایسی سزائیں کیوں پائی جاتی ہیں؟وہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ یہ سزائیں اصل میں اس وقت تھیں جب انسان تمدن اور کلچر نہیں رکھتا تھا؛ لوگ ہمیشہ جنگ کیا کرتے تھے اور ایک دوسرے کو قتل و غارت کرنے میں مشغول رہتے تھے؛ لیکن آج انسان تمدن یافتہ ہو چکا ہے اور سب کے سب با ادب ہیں؛ ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں اور فرض کیجئے اگر کسی شہر پر ایٹمی بم بھی گرائیں تو بہت ہی باادب خاموشی کے ساتھ بغیر شور و غل کے وہ لوگ اتٹمی بم گراتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں !! آج کے دور میں ،یہ خشونت آمیز سزائیں پھانسی اور کوڑے وغیرہ نہیں ہونے چاہئیں، اس طرح کی تبلیغات کی ہوا اتنی مضبوط اور موثر ہے کہ افسوس صد افسوس، بعض وہ لوگ جو کہ روحانی (مولانا )ہیں اور سر پر عمامہ بھی رکھتے ہیں وہ بھی اس سے متائثرہو جاتے ہیں اور واضح طور پر اخبارات میں لکھتے ہیں کہ ایسی سزائیں جو کہ انسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ان کو ختم ہونا چاہئے؛ البتہ یہ اظہار کوئی نئی بات نہیں ہے، انقلاب کے شروع میں بھی ہم کو یاد ہے جبہہ ملّی کے جو حقوق دان تھے انھوں نے بیانیہ دیا تھا کہ اسلامی قصاص کے قانون خشونت آمیز اور انسانیت کے خلاف ہیں اور ان کو ختم ہونا چاہئے، ان دنوں حضرت امام خمینی ان باتوں کے مقابلہ میں سختی کے ساتھ کھڑے ہوئے اور آپ نے ان کے مرتد ہونے کا حکم دیا، اور امام خمینی کے فتوے سے وہ اتنا خوف زدہ ہو گئے کہ وہ سالوں اپنے سوراخوں میں چھپے رہے؛ لیکن آج پھر یہ پست اور جسارت سے مملو باتیں اٹھائی جارہی ہیں اور کھلے عام عمومی جگہوں اور اخبارات میں پیش کی جاری ہیں ۔

لہذٰ ا بات اس کام کو انجام دینے والے (فاعل )سے مربوط نہیں ہے کہ کیوں وہ مسکراتا نہیں اور با ادب نہیں ہے بلکہ اعتراض ان سزائوں پر ہے کہ یہ ا نسانیت کے خلاف اور خشونت آمیز ہیں ،سوال یہ ہے کہ یہ سزائیں جن کووہ لوگ خشونت آمیز جانتے ہیں ،ا ن کو ہونا چاہئے یا نہیں ہونا چاہئے ؟ وہ لوگ کہتے ہیں کہ خشونت نہیں ہونا چاہئے ان کی مرا د خشونت سے یہی پھانسی، قتل ،قصاص اورکوڑے وغیرہ ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ان کی باتوں کو غلط ثابت کریں ، لہذا ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں بچتا ہے کہ ہم اسی لفظ کو استعمال کریں اور کہیں کہ ہماری نظرمیں خشونت کو ہونا چاہئے؛ البتہ ہماری مراد خشونت سے پھانسی ،قتل ، قصاص و تازیانہ مارنے کا حکم ہے ۔ہم کو اس بات پر کوئی ضد نہیں ہے کہ ہم لفظ خشونت کو درمیان میں لائیں؛ لیکن چونکہ انسانی حقوق کے بیانیہ اور منشور میں ایسا آیا ہے اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ حقوق انسانی کے بیانیہ کی رد کریں اور اس کو غلط ثابت کریں اور اس کے مقابل کھڑے ہو جائیں؛ اس لئے مجبوراً ہم لفظ خشونت کو استعمال کرتے ہیں اور ہم کہتے ہیں کہ یہ باتیں جو تآپ کی نگاہ میں خشونت آمیز ہیں ان کا ہونا ضروری ہے؛ اس کی دلیل یہ ہے کہ یہ واضح طور سے قران میں بیان ہوا ہے اور اس پر قرآن کی نص اور دلیل موجود ہے اور ہم ، العیاذ با اللہ ، قرآن کا انکار کریں یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کا ، اور ایک مسلمان واقعاًکبھی بھی انسانی حقوق کے بیانیہ کی خاطر قرآن کی مذمت نہیں کر سکتا اور قرآن کوچھوڑ نہیں سکتا ہے ۔

قرآن کریم میں اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے: ''الزانےة والزانی..۔''(١) ہر زنا کرنے والا چاہے مرد ہو یا عورت اس کو سو کوڑے لگائواور اگر تم لوگ خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو اس خدا کے کام میں ان دونوں کی نسبت کوئی رحم اور دل سوزی نہ کرو ۔اس آیہ کے واضح اعلان کے بعد اگر کوئی خدا اور قیامت پر حقیقی ایمان رکھتا ہے تو اس کو ان دونوں زنا کرنے والوں کی نسبت جنھوں نے زنا جیسے برے فعل کو انجام دیا ہے تھوڑا سا بھی رحم نہیں ہونا چاہئے؛ یہ بات بالکل واضح ہے کہ جب رحم نہیں

..............

(١)سورہ نور : آیہ ٢۔

ہوگا توبے رحمی پائی جائے گی ۔قرآن میں ارشاد ہو رہا ہے مومن وہ ہے جو ایسی جگہوں

پر رحم نہ کرتا ہو؛ البتہ ایسی بے رحمی نہیں جو کہ ظالمانہ بے رحمی کہی جائے ۔بہر حال مسلمان یا قران کی اس آیت کو قبول کرتے ہوئے اس پر عمل کرے یا عالمی انسانی حقوق کے بیانیہ کے پیچھے جائے اور اس کی حمایت کرے

قرآن مجید میں پھر خدا وند عالم ارشاد فرماتاہے'' و السّارق والسّارقة فا قطعوا ایدیھما جزائً بما کسبا''(١) مرد اور عورت نے جو چوری کی ہے اس کی سزا میں ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دئے جائیں ۔ اور عالمی انسانی حقوق کا بیانیہ کہتا ہے کہ یہ حکم وحشیانہ اور انسانیت کے خلاف ہے ۔ مسلمان کو چاہئے کہ یہاں قرآن اور عالمی حقوق انسانی کے بیانیہ میںسے کسی ایک کو اختیار کرے ۔

اسی طرح قرآن کا یہ نظریہ بھی ہے کہ'' ولکم فی القصاص حیوٰة یا اولی الالباب''(٢) ائے عقلمندو! تمھارے لئے قصاص اور بدلہ لینے میں زندگی ہے؛ قرآن کی نگاہ میں معاشرہ کی سلامتی اور زندگی اس وقت ضمانت پائے گی جب قاتل انسان سزا قتل ہے؛ لیکن عالمی انسانی حقوق کابیانیہ یہ کہتا ہے کہ قتل کی سزا ایک غیر انسانی کام ہے اور اس کو ختم ہونا چاہئے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next