اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



''کلوا من الطیبات ما رزقناکم''(١)یعنی جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تم کو رزق میں دی ہیں ان میں سے کھائو پیونیزیہ بھہ ارشاد فرماتا ہے:'' کلوا و اشربوا '' (٢)کھائو اور پیو ایسے احکام اور دستور انسان کے لئے مشکل نہیں رکھتے ہیں لیکن جس وقت اسلام کہتا ہے کہ شراب نہ پیوسور کا گوشت نہ کھائو وغیرہ تویہ دستور ہر ایک کے لئے جاذبہ نہیں رکھتے اور بہت سے ایسے ہیں جن کو یہ احکام اچھے نہیں لگتے ۔

..............

(١) سورہ اعراف : آیہ ١٦٠ ۔

(٢) سورہ اعراف :آیہ ٣١۔

 

اسلامی احکام میں دافعہ کا ایک تاریخی نمونہ

یہاں پر مناسب ہوگا کہ تاریخ اسلام کے ایک واقعہ کی جانب اشارہ کرتا چلوں؛ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ رسول اکرم حضرت محمد(صلی الله علیه و آله وسلم)کے زمانے میں نجران کے عیسائی رسو ل(صلی الله علیه و آله وسلم)کے پاس توحیدی عقائد سے متعلق بحث و مناظرہ کے لئے آئے؛ لیکن علمی بحث میں ان لوگوں کوشکست ہوئی، اس کے بعدبھی ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا رسول اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)نے ان لوگوں کو مباہلہ کی دعوت دی ؛ان لوگوں نے اس مباہلہ کو قبول کیا ؛جس وقت پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)اپنے محبوب اور سب سے خاص لوگوں یعنی امام علی ، حضرت فاطمہ اور امام حسن و امام حسین کو ساتھ لیکر مباہلہ کے لئے گئے اور نصاریٰ کے علماء کی نگاہ ان پانچ نورانی چہروں پر پڑی ؛تو ان لوگوں نے کہا کہ جو کوئی بھی ان حضرات سے مباہلہ کرے گا اس کے حصّہ میں دنیا و آخرت کی رسوائی اور ذلت ہوگی؛ لہذٰا وہ لوگ پیچھے ہٹ گئے اور مباہلہ نہیں کیا ؛ان عیسائیوں نے علمی گفتگو میں بھی شکست کھائی اور مباہلہ بھی نہیں کیا لیکن پھربھی مسلمان ہونے کو تیار نہیں ہوئے اور کہا کہ ہم جزیہ (ٹیکس ) دیں گے لیکن عیسائی رہیں گے ۔

جب اصحاب نے پیغمبر اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)سے پوچھا کہ آخر وہ لوگ اسلام قبول کرنے پر تیار کیوں نہیں ہوئے؟ تو حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم)نے فرمایا :کہ جو عادت اور چاہت ان کو سور کے گوشت کھانے اور شراب پینے کی تھی ،ان چیزوں نے اس سے ان کو مانع رکھا،چونکہ اسلام نے ان چیزوں کو حرام قرار دیا ہے لہذٰا ان لوگوں نے اسلام کو قبول نہیں کیا .

یہ ایک تاریخی نمونہ ہے کہ اسلام کی حقانیت ایک گروہ اور جماعت کے لئے ثابت اور واضح تھی لیکن بعض اسلامی احکام ان کے لئے ''دافعہ''رکھتے تھے جو اس بات سے مانع ہوا کہ وہ لوگ اسلام کو قبول کریں ؛یعنی ان کی انسانی فطرت ، حیوانی خواہشات سے مقابلہ کیا ،اس تعارض و ٹکرائو میں انھوں نے نفسانی خواہشات کو مقدم کیا ۔یہ مسئلہ صرف نجران کے عیسائیوں سے مخصوص نہیں ہے، بلکہ ان تمام لوگوں سے متعلق ہے جنھوں نے الٰہی اور خدائی تربیت سے اپنے کو مزین اور آراستہ نہیں کیا ہے ،یا جو لوگ جسمانی اور حیوانی خواہشوں سے مغلوب ہیں ۔ وہ احکام اور دستورات جو کہ انسان کے مادی خواہشات کو محدود کرتے ہیں وہ ہی لوگوں کے لئے ''دافعہ'' ہیں اور جیسا کہ اشارہ ہوا اسلام میں ایسے بہت سے قوانین پائے جاتے ہیں قانوں اسلامی جو یہ کہتا ہے کہ ٤٠ درجہ گرمی میں ١٦ گھنٹے اپنے کو کھانے پینے سے روکے رکھو؛اور روزہ رکھو یہ انسانی خواہشات سے میل نہیں کھاتا، ان کے لئے یہ کام مشکل ہے خاص طور سے نان وائیوں کے لئے( جو کہ روٹیاں وغیرہ پکاتے ہیں) اس لئے کہ وہ مجبوراًآگ کے قریب رہتے ہیں، پھر بھی ایسے بہت سے لوگ ہیں جو کہ چلچلاتی دھوپ یا شعلہ ور آگ کے قریب رہ کر بھی ان احکام پر خوشی سے عمل کرتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں،لیکن ایسے تربیت شدہ بہت کم نظر آئیں گے ۔یا مثلاًخمس ہی کا قانون ممکن ہے ہمارے اور آپ جیسے لوگوں کے لئے کہ شاید سال میں ہزارروپیہ سے زیادہ نہ ہو اس ہزارروپئے کے نکالنے میں کوئی مشکل اورپریشانی نہیں ہے ،ہو لیکن جن لوگوں کے ذمہ لاکھوں روپئے خمس نکالنا ہو ان کے لئے بہت ہی مشکل کام ہے، اسلام کے اوائل میں بہت سے لوگوں نے صرف اسی حکم زکواة کی وجہ سے اسلام کو چھوڑ دیا اور رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)کے خلاف ہو گئے؛ اور جس وقت رسول(صلی الله علیه و آله وسلم)کا ایلچی ان کے پاس زکواة لینے کے لئے جاتاتھا تو ان لوگوں نے کہا کہ رسول بھی ٹیکس لیتے ہیں؛ ہم کسی کو بھی خراج اور ٹیکس نہیں دیں گے ؛یہ قانون ان کے لئے دافعہ تھا اور یہی سبب بنا کہ ان لوگوں نے اسلام سے دوری اختیار کر لی یہاں تک کہ اس کی وجہ سے وہ لوگ خلیفہ مسلمین سے جنگ کرنے کو تیار ہو گئے ۔

یا مثلاً اسلام جنگ و جہاد کا حکم دیتا ہے یہ فطری بات ہے کہ جنگ میں حلوا، روٹی کھانے کو نہیں ملتی بلکہ مارے جانے ، قید ہونے ،اندھے ہونے،ہاتھ پیر کٹنے اور دوسرے بہت سارے خطروں کا امکان رہتا ہے، بہت سے لوگ ان خطروں کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں اور حکم جنگ یا میدان جنگ میں جانے کے مخالف ہیں؛اس کے بر خلاف بہت سے مجاہد (سپاہی ) ایسے بھی ہیں جو میدان جنگ میں جانے کے لئے ہر طرح سے آمادہ دکھائی دیتے ہیں اور بہت ہی شوق سے ان خطرات کو قبول کرتے ہیں ؛پھر بھی اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ یہ حکم بہت سے لوگوں کے لئے جنھوں نے اپنے کو ایسا نہیں بنایا ہے کوئی جاذبہ نہیں رکھتا ہے؛ اور کسی بھی بہانے سے اپنی جان چراتے ہیں اور اس کام سے فرار اختیار کرتے ہیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next