اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



(١) سورہ بقرہ آیہ ٢٢٩

لہذٰا اس سے تجاوز نہ کرنا اور جو لوگ اللہ کے حد ودسے آگے بڑھ جاتے ہیں وہی للوگ ظالم ہیں ۔

آخر میں ایک مرتبہ پھر پچھلے جلسے کی باتوں کو دہرائوں گا ۔اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث تین شکل اور تین عنوان سے قابل تصور ہے :

(١)اسلام کے سارے احکام اور معارف ایسے ہیں کہ دیندار افراد کے لئے صرف بعض چیزوںکے جذب کا سبب بنتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے صرف بعض چیزوںکے دفع کا سبب بنتے ہیں یاان میں دونوں صورتیں ہیں ؟

(٢)اسلام کے تمام معارف مسائل ایسے ہیں کہ عام انسانوں کے لئے جاذبہ رکھتے ہیں یا ایسے ہیں کہ ان کے لئے دافعہ رکھتے ہیں ؟

(٣)اسلام مسلمانوں اورغیر مسلمانوں کو اپنی طرف جذب کرنے کے لئے جاذبہ رکھنے والے طریقے کا سہارا لیتا ہے یا پھردافعی روش کو استعمال کرتا ہے یا ان دونوں طریقوں کا سہارا لیتا ہے ؟جو کچھ ہم نے اس بحث میں زیادہ توجہ کا مرکز بنایا حقیقت میں وہ تیسرے سوال کا جواب تھا اور اسی تیسری قسم پر زیادہ بحث رہی اور پہلے دو سوالوں سے متعلق زیادہ بحث نہیں ہوئی ،چونکہ اور دوسرے موضوعات کی اہمیت کی بنا پر آئندہ جلسوں سے ایک نئے موضوع کو شروع کرنے کا ارادہ ہے؛ لہذٰا جاذبہ اور دافعہ کی بحث کو یہیں پر ختم کرتے ہیں؛ بعدمیںکبھی اس بحث کو مکمل کریںگے ۔ انشاء اللہ۔

سوال اور جواب

سوال : اسلام میں جاذبہ اور دافعہ دونوں پائے جاتے ہیں اس سلسلہ میں کوئی بحث نہیں ہے لیکن لفط خشونت کے مفہوم کے بارے میں د و پہلو سے دقت کرنے کی ضرورت ہے ۔پہلے یہ کہ کیا یہ مفہوم ایک دینی اصطلاح ہے اور قرآن و حدیث میں یہ استعمال ہواہے ؟ میری نگاہ میں ایسا نہیں ہے ؛کیونکہ قرآن میں مطلق طور سے یہ لفظ استعمال نہیں ہوا ہے اور روایات میں بھی تقریباًیہ لفظ نہیں آیا ہے یعنی بہت ہی کم استعمال ہوا ہے خلاصہ یہ کہ ایسا نہیں ہے کہ قرآن و روایات کے الفاظ میں خشونت کو فضیلت کے طور پر پیش کیا گیا ہو، فارسی زبان میں بھی کلمہ خشونت اچھی نظرسے نہیں دیکھا جاتا؛اس کے مساوی جو لفظ استعمال ہوتاہے وہ بے رحمی کاہے اور یہ قاطعیت سے جدا ہے قاطعیت(قانون کی سخت پاندی) لفظ ایک اچھا عنوان رکھتا ہے لہذاخشونت کو اس کے مترادف نہیں سمجھنا چاہئے ۔ ایک فوجی افسر ممکن ہے قاطع ہو اور کبھی ممکن ہے کہ بہت ہی خشن (درشت)ہو اور یہ دونوں لفظ ایک نہیں ہیں ،ممکن ہے انسان ایک جذباتی کام مثلاً چومنے کو بھی خشونت کے ساتھ انجام دے ۔

دوسرا نکتہ جو لفظ خشونت سے متعلق ہے وہ یہ کہ فرضاًہم اس بات کو قبول کر بھی لیں کہ یہ اصطلاح قرآن و روایات اور اسلامی الفاظ میں استعمال ہوئی ہے اور اس کو بھی قبول کر لیں کہ خشونت کا مفہوم قاطع کے مترادف ہے اور ایک اچھا پہلو بھی رکھتا ہے لیکن حالات اور مسائل کو دیکھتے ہوئے عقل و نقل دونوں کے اعتبار سے اس لفظ کو استعمال کرنا صحیح نہیںہے؛ لہذٰا ہم کو اس کے عوض دوسرے الفاظ کو استعمال کرنا چاہئے؛ عقلی لحاظ سے اس بنا پر کہ عقل یہ کہتی ہے کہ جس سماج اور ماحول میں آپ گفتگو اور کلام کر رہے ہیںوہاں پر خشونت کے معنی اچھے نہیں سمجھے جاتے ہیں اور اس سے بے رحمی کے معنی سمجھے جاتے ہیں؛ اس معنی کو یہاں استعمال کرکے دافعہ کو بلا وجہ نہیں لانا چاہئے ؛جب کہ دوسرے لفظ کو ہم اسی معانی کے لئے استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح آسانی سے اس مشکل کو حل کر سکتے ہیں ۔ اور نقل ]قرآن وحدیث [کے اعتبار سے اس طرح کہ قران میں ارشاد ہو رہا ہے: ''یا ایھا الذین آمنوا لا تقولوا راعنا و قولوا انظرنا''(١)اے وہ لوگو !جو کہ ایمان لائے ہو'' راعنا ''نہ کہو بلکہ'' انظرنا ''کہا کرو۔ کیونکہ دشمن راعنا کہہ کے غلط معنی مراد لیتے تھے، اسی مراد کو دوسرے لفظ کے ذریعہ لے سکتے ہیں لہذٰ اانظرنا کہو تاکہ دشمن جو غلط معنی مراد لے رہا ہے اس کا سد باب کیا جا سکے ۔

دوسرے لفظوں میں یہ کہہ سکتے ہیں کہ خشونت کی بحث کبھی فعلی اعتبار سے حسن وقبح رکھتی ہے اور کبھی فاعلی اعتبار سے حسن و قبح رکھتی ہے مثلاًقتل کرنا یہ قتل ،ایک کام اور فعل ہے جو کہ ماہیت کے اعتبار سے خشن اور سخت ودرشت ہے ،ایک مرغے یا بھیڑ کا سر جدا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next