اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



لہذا اس سوال کا جواب کہ اسلام کے احکام و قوانین جاذبہ رکھتے ہیں یا دافعہ؟ یہ ہے کہ عام لوگوںکے لئے بعض اسلامی دستورات جاذبہ رکھتے ہیں اور بعض احکام دافعہ رکھتے ہیں ۔

عملی میدان میں جاذبہ اور دافعہ کے سلسلے میں اسلامی حکم

اب یہ سوال کہ مسلمانوں کا برتائو اور ان کا طور طریقہ آپس میں ایک دوسرے کے متعلق بلکہ غیر مسلمانوں کے ساتھ کیسا ہوناچاہئے؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام کی بنیاد جاذبہ پر ہے او ر اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں اوراسلامی معاشرہ کو سعادت اور کمال تک پہونچائے لہذٰ ااسلامی معاشرہ کا برتائو ایسا ہونا چاہئے کہ دوسرے افراد جو لوگ اس ماحول اور سماج سے باہر زندگی بسر کر رہے ہیں ان کی جانب متوجہ ہوں اور اسلام ان کے لئے واضح ہوجائے اور وہ لوگ راہ راست پر آجائیں ۔ اگر لوگ اسلامی ماحول اور اسلامی مرکزسے دور رہیں گے تو ان تک اسلام نہیں پہونچایا جا سکتا اور وہ لوگ ہدایت نہیں پا سکتے ۔ لہذٰا اہم اور اصل یہ ہے کہ مسلمان ایسی زندگی بسر کریں کہ وہ آپس میں بھی ایک دوسرے سے جاذبہ رکھتے ہوں اور روز بروز ان کے درمیان اپنائیت اور یکجہتی بڑھتی رہے اور غیرمسلم جو کہ اس ماحول سے الگ اور جدا ہوں ان کے متعلق بھی جاذبہ رکھنا چاہئے تا کہ ان کی بھی ہدایت ہو سکے اگر چہ اسلام کی اصل جاذبہ کی ایجادپر ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ ہم ہر حالت میں ایک ہی رفتار رکھیں ؛بلکہ بعض مواقع پر دافعہ کی چاشنی اور مٹھاس سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہئے ۔ اس بات کی وضاحت کے لئے اور اس کو ثابت کرنے کے لئے اس جلسہ میں جو وقت باقی رہ گیا ہے اسی اعتبار سے کچھ باتوں کو پیش کررہا ہوں اور بقیہ باتوں کو بعد میں عرض کروں گا، ا ن شاء للہ ۔

جاذبہ رکھنے والے اسلامی کرداروں کے بعض نمونے

مذہب اسلام میں عدل و انصاف،احسان ، لوگوں کے ساتھ بہتر سلوک اور لوگوں کو خوش رکھنے کی بہت زیادہ تاکیدکی گئی ہے ؛اسلام کی بڑی عبادات میںسے ایک یہ بھی ہے کہ ایک انسان دوسرے کو خوش کرے اور اگر دوسرا غمگین و رنجیدہ ہو تو اس کے رنج وغم کوکسی نہ کسی طرح دور کرے ۔بعض روایتوں میں ایک مومن کو خوش رکھنے اور اس سے رنج و غم کو دور رکھنے کا ثواب سالوںکی عبادت سے بہتر ہے یہاں تک کہ اگر یہ کام صرف اتنا ہو کہ اس کے ساتھ محبت آمیز برتائو کرے یا ایسی بات کہے جس سے اس کو امید ہوجائے اور اس کو سکون دل پیدا ہو جائے مثلاً مومن کو دیکھ کر مسکرانا ،اس سے ہاتھ ملانا اور اس کو گلے لگانا ، بیماری کے وقت اس کی عیادت کرنا ، اس کے کاموں میں اس کی مدد کرنا جو کہ مسلمانوں کے درمیان ہماہنگی دوستی اور جاذبہ کا سبب ہیں ان سارے کاموں کا ثواب اسلامی ر و ا یات میں بہت کثرت کے ساتھذکر کیا گیا ہے؛ اسلام صرف اسی پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ اس کے علاوہ ان میں سے بہت سارے احکام اور دستورات کو غیر مسلموں سے متعلق بھی بتاتاہے اور اس کے متعلق بہت ہی تاکید کرتا ہے ؛اسلام کہتا ہے کہ اگر کوئی غیر مسلم تمھارا پڑوسی ہے یا تم اس کے ساتھ سفر کر رہے ہو تووہ تم پرحق پیدا کر لیتا ہے کہ اگر بیچ راستے سے کسی مقام پر وہ تم سے الگ ہو رہا ہے تو جب وہ اپنے راستے پر جانے لگے تو خدا حافظی کے لئے چند قدم اس کے ساتھ جا ئو اور اس کے بعد رخصت کر کے اس سے جدا ہوئواور اپنا راستہ اپنائو،اسلام عدل و انصاف کی ہر ایک کے ساتھ تاکید کرتا ہے حتیّٰ کافروں کے ساتھ بھی ؛نیز کافر وں پر ظلم و ستم کو ناجائز سمجھتا ہے ،اگر کوئی کافر ہے تب بھی تم اس پر ظلم و ستم کا حق نہیںرکھتے ہیں :''ولایجرمنکم شنٰان قوم علیٰ الاّ تعدلوااعدلواھواقرب للتقویٰ''(١)اور خبر دار کسی قوم کی عداوت تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف کو ترک کر دو انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے حتیّٰ کفّار کے متعلق صرف عدل و انصاف ہی کرنا کافی نہیں ہے بلکہ احسان (اچھا سلوک ) جس کا مرتبہ عدل سے بڑھ کر ہے اس کے متعلق بھی خدا کا حکم ہے کہ اس کوبھی کرنا چاہئے ، ارشاد ہوتا ہے ''لا ینھاکم اللہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین ولم یخرجوکم من دیارکم ان تبرّوھم و تقسطوا الیھم '' (٢) اللہ ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ نہیں کی ہے اور تمھیں وطن سے نہیں نکالا ہے اس بات سے تم کو نہیں روکتا ہے کہ تم ان کے ساتھ نیکی اور انصاف کرو، بعض موقعوں پر اس سے بڑھ کر حکم دیتا ہے اور فرماتا ہے کہ مسلمان

..............

(١) سورہ مائدہ آیہ ٨.

(٢) سورہ ممتحنہ آیہ ٨.

اسلامی حکومت میں جوٹیکس دیتے ہیں تو اس ٹیکس میں سے کچھ ان کفار کودو جو کہ اسلامی حکومت کی سرحداور اس کے پڑوس میں زندگی بسر کرتے ہوں تا کہ وہ لوگ اسلام کی طرف متوجہ ہوں اور اسلام میں گھل مل جائیں(١)بلکہ ان کو تھوڑا بہت صرف اس لئے دو تاکہ ان کا دل مسلمانوں کے حوالے سے نرم ہو اور وہ لوگ مسلمانوں پر مہر بان ہوں اور ان کے دلوں میں مسلمانوں اور اسلام کی محبت پیدا ہو؛ ایسا سلوک کرنے سے دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جائے کہ وہ زیادہ سے زیادہ تم سے قریب ہوں اور وہ تم سے مانوس ہو جائیں؛ پھر وہ تمھاری زندگی کا قریب سے جائزہ لیںگے اور تمھاری باتوں کو سنیںگے؛ ممکن ہے کہ وہ متاثرہو کر مسلمان ہو جائیں ؛ایسی مثالیں تاریخ میں کثرت سے پائی جاتی ہیں کہ کفّار مسلمانوں سے رابطہ رکھنے ، اسلام کی منطقی باتیں سننے اور پیروان اسلام کی رفتارو گفتار اور ان کی سیرت و اخلاق کا مشاہدہ کرنے کی وجہ سے اسلام کو قبول کر لیابہر حال یہ چند نمونے تھے جنکو اسلام نے جاذبہ کے لئے اپنے دستورات اور احکام میں جگہ دی ہے ۔

..............



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next