اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



کیا ہے قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ''فا نھا لا تعمی الابصار و لٰکن تعمی القلوب التیّ فی الصدور''(١)

حقیقت میں آنکھیں اندھی نہیں ہیں بلکہ وہ دل جو کہ سینے میں ہیں وہ اندھے ہیں ،مادی اور جسمانی آنکھ زندہ ہے اور دیکھتی ہے، لیکن روحانی اور باطنی آنکھ نہیں رکھتے ہیں،وہ صنوبری دل جو کہ سینے کے اندر دھڑکتا ہے اور زندہ ہے لیکن ایک دوسرا جو دل بھی ہے کہ عیب ونقص اسی میں ہے'' ثمّ قست قلوبکم من بعدذالک فھی کالحجارة او اشدّ قسوة '' (٢)پھر اس کے بعد تمھارے دل سخت ہوگئے پتھر کی، طرح بلکہ اس بھی زیادہ سخت وہ دل پتھر جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت ہے کہ کوئی چیز اس میں اثر نہیں کر سکتی ؛بلکہ وہ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہو چکا ہے '' وانّ من الحجارة لما یتفجّرمنہ الانھار وانّ منھا لما یشقّق فیخرج منہ المائ'' (٣) اور بعض پتھروں سے نہریں نکلتی ہیں اور بعض شگافتہ ہوتے ہیں تو اس سے پانی نکلتا ہے بہر حال قران مجید میں ایسی بہت سی آیتیں پائی جاتی ہیںجن سے پتہ چلتا ہے کہ قرآن اس جسمانی آنکھ، کان اوردل کے علاوہ حیاتی آنکھ،کان،دل کا قائل ہے، اور جس طرح سے جسم کی زندگی،نشو ونما اس کے تکامل کے لئے جذب و دفع کی ضرورت ہے ویسے ہی روحی حیات کو بھی جذب و دفع کی احتیاج ہے ۔ جس طرح سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو کہ جسمانی زندگی پر اثر ڈالتی ہیں اور اس جسم کے لئے مفید یا مضر ہیں ایسے ہی بہت سے عوامل ایسے بھی پائے

..............

(١)سورہ حج؛آیہ ٤٦۔

(٢)اور (٣)سورہ بقرةآیة٧٤.

جاتے ہیں جو کہ اس روحانی زندگی کے لئے فائدہ مند یا نقصان دہ ہیں ۔جس طرح جسمانی زندگی کئی مرتبے اوردرجے رکھتی ہے اور اس میں نقص و کمال ، اور شدت وضعف پایا جاتا ہے، روحانی زندگی بھی اسی طرح کئی درجے اور مرتبے رکھتی ہے ؛روحانی زندگی کا سب سے پہلا درجہ یہ ہے کہ انسان انبیاء کی پہلی دعوت جو ایمان اور توحید سے متعلق ہے اس کو قبول کرے اور اس کو جذب کرسکے ۔ البتہ انبیاء کی اس ہدایت کے اثر اور ان کی تعلیمات پر عمل کرنے کے بعد انسان دھیرے دھیرے روحانی زندگی کے بلند مرتبہ کو حاصل کر سکتا ہے؛ اسی جگہ پرتزکیہ و تہذیب نفس کی بحث آتی ہے ۔

تزکیہ نفس یعنی روح کے کمال کے لئے لازمی جذب اور دفع

نفس کو پاک و صاف کرنے (تزکیہ نفس )کی بحث اصل میں وہی ''روح سے مربوط جذب و دفع ''بحث ہے ۔ ایک درخت کے لئے جب یہ چاہیں کہ وہ خوب تناور اورپھولے پھلے توضروری ہے کہ وہ مٹی اور ہوا سے مواد کو جذب کرے اور اس کی چھٹائی کی جائے اور مضر نباتی زہروں اور آفتوں کو او سے دور رکھا جائے ۔اور یہ دونوں چیزیں یعنی جذب و دفع ضروری ہے ؛انسان کے لئے بھی یہ چیزیں ضروری ہیں یعنی وہ ایسا کام کرے کہ اس کی روح صیقل ہو۔اس کا مقدمہ یہ ہے کہ وہ چیزیں جو انسان کی روح اور زندگی کے لئے ضروری اور مفید ہو ں ان کو جذب کرے اور وہ چیزیں جو انسان کی روح کے لئے مضر اور نقصان دہ ہیں اس کو اپنے سے دور کرے ، لہذٰا سب سے پہلاقدم یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو پہچانے اور ان کی معرفت حاصل کرے اور غفلت و جہالت سے باہر آئے؛ انسان کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اس کی روح ایسی ہے کہ '' بذکر اللہ تطمئنّ القلوب '')١) خدا وند عالم کے ذکر سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے، روح کی غذا خدا کا ذکر اور اس کی یاد ہے، دل کی زندگی اور خدا کی یاد کے درمیان ربط پایا جاتا ہے؛ یہی دل ایسا ہے کہ اگر اس کی حفاظت نہ کی جائے،

..............

(١) سورہ رعد: آیہ ٢٨۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next