اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



(٣)سورہ آل عمران :آیہ ١٥٩۔

لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بد مزاج اور سخت دل ہوتے تویہ تمھارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے ۔

اور پھریا اسی قرآن کریم میں ارشاد ہو رہا ہے : ''علیھا ملائکة غلاظ شداد '' (١)یعنی اس (جہنم کی آگ )پر سخت اور خشن فرشتے معین ہیں ؛پورے طور سے (غ ل ظ )کامادہ ١٣ بار قران میں استعمال ہوا ہے اور جیسا کہ ہم نے پہلے بھی کہا غلظت اور خشونت مترادف یعنی ہم معنی ہیں اور پورے طور پرایک معنی رکھتے ہیں اور جب لفظ غلظت قران مجید میں استعمال ہوا ہے تو یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ خشونت کا مفہوم قرآن میں نہیں آیا ہے؛ اسی طرح ایک جگہ پر رحم کا مفہوم شدّت کے مفہوم کے مقابلہ میں استعمال ہوا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے : ''محمد رسول اللہ والذین معہ اشدّاء علی الکفّار رحماء بینھم''(٢)محمد اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر سخت اور آپس میں مہربان اور رحم دل ہیں ۔

روایات میں بھی خشن لفظ استعمال ہوا ہے اور کئی جگہوں پر فضیلت کے طور پر استعمال ہوا ہے مثلاً حضرت علی کے بارے میں ہے کہ آپ اللہ کی ذات میں یعنی اس کے حقوق ادا کرنے میں خشن تھے ''خشن فی ذات اللہ''(٣) اس اعتبار سے لغت ، آیت اور روایات سے یہ بات واضح ہوجا تی ہے کہ سوال میں جس چیز کا دعویٰ کیا گیا

..............

(١) سورہ تحریم :آیہ ٦۔

(٢) سورہ فتح :آیہ ٢٩۔

(٣) بحار الانوار :جلد ٢١ ،روایت دہم ،باب ٣٦۔

ہے وہ صحیح نہیں ہے لیکن پھر بھی لغوی بحث اور استعمال کے موارد سے صرف نظر کرتے ہوئے

یہ سوال کہ خشونت کے معنی بے رحمی ہیں یا نہیں ؟ میں آپ سے سوال کروں گا :جیسا کہ اسلام کے جزائی قانون میں ہے ؛اگر کوئی کسی گناہ کا مرتکب ہوا ہے اور اس کے بدلے اس کا داہنا ہاتھ قطع کیا جائے ،اور اس کے بائیں پیر کو بھی کاٹا جائے اور برادری سے اس کا بائیکاٹ بھی کیا جائے اور کوئی اس کا احترام نہ کرے ، یہ بے رحمی ہے یا رحم ؟یا اگر جیسا کہ اسلام کے جزائی قا نون میں ہے ،آگ روشن کرکے کسی کو سزا کے طور پر اس آگ میں ڈالا جائے اور اس کو اس میں جلایا جائے، یا اس کے ہاتھ اور پیر کو باندھ کر پہاڑ سے نیچے پھینک دیاجائے ؛یا ایک دینار طلا کے برابر چوری کے سبب کسی کی چار انگلیاں کاٹی جائیں؛ تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ کام رحم ہے یا بے رحمی ہے ؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next