اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



(١) سورہ ممتحنہ: آیہ ٨۔

 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہوتا ہے: '' انّما ینھاکم اللہ عن الذین قاتلوکم فی الدین واخرجوکم من دیارکم وظاھروا علیٰ اخراجکم ان تولوہم''(١) وہ تمھیں صرف ان لوگوںکی دوستی سے روکتا ہے جنھوں نے تم سے دین میں جنگ کی ہے اور تمھیں وطن سے نکال باہر کیا ہے اور تمھارے نکالنے پر دشمنوں سے مدد کی ہے ۔

پہلے گروہ کے لئے جاذبہ رکھو، لیکن یہ گروہ کہ جو اسلام اور مسلمان کے دشمن ہیں ان کے ساتھ پوری طرح سے دافعہ رکھو، ان کی زندگی کو قید کیے رہو اور ان کوہلنے کی مہلت نہ دو اس بات کی پھر تاکید کروں گا کہ دافعہ کا سہارا فقط ان کے لئے استعمال کر لینا چاہئے جو لوگ کھلے طور اور عام طریقے سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہیں اور اس گروہ کے علاوہ کسی کے متعلق ایسا حکم نہیں ہے؛ یہاں تک کہ قران میں حکم ہے کہ جنگ کا عالم ہو اور کفار کا لشکر ایک طرف اور مسلمانوں کا لشکردوسری جانب اوراگرجنگ بھی ہو رہی ہو؛ اگر مشرکین میں سے کوئی ایک شخص سفید پرچم اٹھائے]جو کہ صلح اور جنگ بندی کی نشانی ہے [ یا کسی طرح بھی آپ تک پیغام پہونچائے کہ میں ایک علمی سوال کرنا چاہتا ہوں اور یہ بات میرے نزدیک ظاہر نہیں ہو پارہی ہے کہ اسلام حق ہے یا نہیں اور میری آپ سے جنگ حق اور صحیح ہے یا غلط ہے ؟اسلام یہاں پر کہتا ہے مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ اس شخص کوحفاظت کے ساتھ اسلامی کیمپ میں لایا

..............

(١) سورہ ممتحنہ: آیہ ٩۔

جائے، اور وہاں بیٹھا کر اس کے سوال کا جواب دیا جائے اور اس بات کی کوشش کی جائے کہ دلیل وبرہان سے اس کو مطمئن کیا جائے اور اس کے بعدبھی اگر وہ واپس ہونا چاہے تو اس کو اسی طرح پوری حفاظت کے ساتھ بغیر کسی اذیت کے اس کی پہلی جگہ جو کہ اسلامی لشکر کی پہونچ سے باہر ہو وہاں تک پہونچا دیا جائے؛ پھراگر وہاں اس نے جنگ کا ارادہ کیا تواس کے ساتھ جنگ کی جائے؛ ورنہ اس کوچھوڑ دیں اور وہ جہاں جانا چاہے وہاں چلا جائے، قرآن مجید میں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے ''و ان احد من المشرکین استجارک فا جرہ حتیٰ یسمع کلام اللہ ثم ّابلغہ ما منہ'' (١) اگر مشرکوں میں سے کوئی تم سے پناہ کا طلب گار ہوتو اس کو پناہ دے دو تا کہ وہ خدا کے کلام کو سنے؛پھر اس کے بعد اس کو امن کی جگہ پر واپس کردو ۔آپ دنیا کے کسی حقوقی نظام میں ایسی چیزوں کا سراغ اور نشان رکھتے ہیں ؟اسلام یہ کہتا ہے مسلمان طالب علم تو اپنی جگہ اگر کوئی دشمن کافر کہ جس کے ہاتھ میں تلوارہے اور وہ تم سے جنگ کر رہا ہے اوراسی جنگ کی حالت میں وہ تم سے کوئی سوال کرنا چاہتا ہے تو اسلام کا حکم یہ ہے کہ تم اس کا جواب دو ۔ہم ایسے مکتب و مذہب کے پیرو ہیں ۔کون کہتا ہے کہ اسلام اور اس کا نظام حکومت سوالوں کے جواب نہیں دیتااور سوال کا جواب تلوار سے دیتا ہے ؟ وہ اسلام جو کہ کافر( اس حال میں بھی کہ تلوار اس کے ہاتھ میں ہو اور جنگ کاعالم ہو)

..............

(١) سورہ توبہ آیہ ٦.

کے ساتھ اس طرح کے سلوک کا حکم دیتا ہے وہ خودمسلمانوں کے درمیان آپس میں اس کے برخلاف کیسے دستور اور حکم دے گا؟



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next