اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



اسلام کی پہلی سیاست یہ ہے کہ وہ پہلے دلیل ،موعظہ اور جدال احسن کا حکم دیتا ہے ؛لیکن اگر بات دشمنی اور تخریب تک پہونچ جائے اور اس بحث کا کوئی علمی جواب نہ ہو اور وہ لوگ اسلام اور اس حکومت کے خلاف سازش میں لگے ہوں اور اسلامی حکومت کو کمزور کرنے کی کوشش میں لگے ہوں تو ان کے مقابلہ میں سوئی برابر بھی نہیں جھکنا چاہئے اور ان پر ذرہ برابر بھی رحم و کرم نہیں کرنا چاہئے، بلکہ ان کا پوری سختی اور فیصلہ کن انداز میں سامنا کرنا چاہئے ۔

قوت دافعہ یا سختی کے استعمال کے سلسلے میں اسلام کا نظریہ

لہٰذااسلام صرف دو جگہوں پر خشونت کو اختیار کرنے اورقوت دافعہ کا سہارا لینے کا حکم دیتا ہے ۔ پہلی وہ جگہ جہاں مسلمان یا غیر مسلمان اسلامی معاشرہ میں دوسرے کے حقوق غصب کررہے ہوں اور کسی بندئہ خدا پر ظلم و ستم ہوتا ہو یا کسی کے ساتھ خیانت کی جارہی ہو دوسری وہ جگہ جہاں اسلامی مملکت کے باہراسلام اور اسلامی ملکوں کے خلاف دشمنی کی جا رہی ہو۔اور سازش رچی جارہی ہو۔ البتہ ان سزائوں کی حد اور حدود کیا ہیں،اورکتنے اور کیسے ہیں؟ جوکہ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں یا دوسرے کے حقوق کو غصب کرنے والوں کے متعلق ہوتی ہیں، عقل بہت سی جگہوں پر ان کو سمجھنے سے قاصر ہے اور یہ سزا ئیں براہ راست خود خدا وند عالم کی طرف سے اور صاحب شریعت کی طرف سے معین ہوئی ہیں، لیکن سزا جو بھی ہو جب سزا معین ہو جائے تویہ سزا پوری سختی کیخلاف ورزی کرنے والوں کے متعلق جاری کرنا چاہئے ۔ جو لوگ غلط اور برے کام انجام دیتے ہیں ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: '' الزانےة والزانی فا جلدوا کل واحد منھما مائة جلدة ولا تاخذکم بھما را فة فی دین اللہ ان کنتم تومنون باللہ والیوم الآخر

ولیشہد عذابھماطائفة من المومنین'(١)زنا کرنے والے مرد اور عورت کو سو سو تازیانے مارو؛ اگر تم خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے ہو تو احکام الہیٰ میں ان کے ساتھ کوئی نرمی نہ کرو؛ اور جس وقت ان کو یہ سزا دو تو مومنین کا گروہ گواہ کے طور پر وہاں حاضر رہے ایسا خلاف اور غلط کام کرنے والے کے ساتھ جتنی بھی سختی ممکن ہو سکے اسے انجام دیاجائے اور کوئی بھی مسلمان جو واقعی طورسے خدا اور قیامت پر ایمان رکھتا ہو ذرہ برابر بھی اس کواس خطا کار پر رحم اور مہربانی نہیں کرنی چاہئے ، اس سزاکی شدّت و سختی اس وقت اور زیادہ ہو جاتی ہے جبکہ یہ کوڑے لوگوں کے سامنے مارے جائیں اور عوام ان دونوںکی سزا پر گواہ ہوں تو یہ بات فطری ہے کہ اس کڑی اور سخت سزا کے برداشت کے ساتھ ساتھ وہ بے آبرو بھی ہوجاتے ہیںلہذا ان کو اس طرح سے سزا دی جائے کہ کوئی دوسرا شخص اس طرح کے کام کی جرائت نہ کر سکے ۔

..............

(١) سورہ نور آیہ ٢.

 

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی بحث کا خلاصہ

اس حصّہ کی بحث کا نتیجہ اور خلاصہ یہ ہوا کہ اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کی حدیہ ہے کہ اگر کسی کے حق پر اسلامی معاشرہ میں چاہے وہ مادی حق ہو یا معنوی ،بالواسطہ یا بلا واسطہ طریقے سے تجاوز کیا جائے یا اسلامی حکومت کی حدود سے باہر رہ کر اسلام اور اسلامی حکومت کے خلاف سازش ہو؛ تو ان دو صورتوں میں ایسا کرنے والے کے ساتھ خشونت اور سختی کرنی چاہئے ،اس کے علاوہ بقیہ جگہوں پر صرف جاذبی رخ اختیار کرنا چاہئے یا پھر نرم لہجہ اور رفتار کے ساتھ جس قدر کم سے کم امکان ہو جاذبہ کے ساتھ دافعہ کی قوت کو استعمال کرنا چاہئے ؛جس جگہ دافعہ اور خشونت کی اجازت ہے اس کی حد اور اس کے طریقہ کو بہت سی جگہوں پر خدا وند عالم نے خود براہ راست معین فرما دیا ہے یا ایک کلی قانون کو اس نے بتا دیا ہے( کہ اسی قانون کے تحت سزا دی جانی چاہئے )لہذا کسی بھی حال میں خشونت کو اختیار کرتے وقت ان حدود سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے ۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: '' تلک حدود اللہ فلا تعتدوھا ومن یتعدّ حدود اللہ فاو لٰئک ھم الظالمون''(١)یہ احکام اللہ کے حدود ہیں

..............



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next