اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



 

کہ ہم نے اسلام کے حقائق کو ظاہر نہیں کیا ہے اور نص قرآن کے اعتبار سے اسلام کے حقائق بیان کرنے کی شجاعت ہمارے اندر نہیں ہے؛ ہم ان حقائق کو بیان کرنے سے کیوں ڈرتے ہیں ؟ مرحوم امام خمینی جس وقت فرماتے تھے تم ان لوگوں کی اس بات سے نہ ڈرو کہ یہ تم کو خشونت اور سنگدلی سے متہم کریں توآپ کا اشارہ ایسی ہی باتوںکی طرف تھا ۔جس اسلام کی طرف ہم لوگوں کو دعوت دیتے ہیں وہ ایک مجموعہ کا نام ہے جس کے اندر یہ سزائیں بھی ہیں جن کا،عالمی حقوق انسانی کا بیانیہ انکار کرتا ہے اور ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم لوگوں کوقرآن مجید کی طرف اس کی دس آیہ یا سو آیہ یا تمام آیتوں سے ایک ہی آیت چھوڑ کردعوت دیں ۔

دوسراسوال اور اس کا جواب

سوال : ہم اس بات کو جانتے ہیں کہ قرآن اور دین اسلام یکبارگی نازل نہیں ہوا ہے بلکہ دھیرے دھیرے معاشرہ اور ماحول کی مناسبت سے اور لوگوں کے فہم و رشدکے اعتبارسے جو پیغمبرکے مخاطب تھے،لایا گیاہے؛ اسی طرح اس بات کے پیش نظرکہ ہم ایک اسلامی ملک میں زندگی بسر کر رہے ہیں اور نوّے فیصدی سے زیادہ یہاں کے لوگ مسلمان ہیں ،لہذٰ اہمارے لئے لازم ہے کہ ہم اسلام کے تمام مطالب کو بغیر کمی اور زیادتی کے قبول کریں اور بعض کا اقرار یا بعض کا انکار نہ کریں؛ اس میں کوئی بھی بحث نہیں ہے ۔مسئلہ یہ ہے کہ آج ہم نے انقلاب برپا کیا ہے اور ہمارے انقلاب کے اثر کی وجہ سے اسلام کو ،جس کی حقیقت دھیرے دھیرے مٹتی جارہی تھی،دوسری حیاتم مل گئی ہے، اس وقت ہم یہ چاہتے ہیں کہ اسلام کو دنیا والوں کے سامنے پیش کریں، اس کو پہچنوائیں اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دیں ۔دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ مغربی اور سامراجی ذرائع ابلاغ اس بات میں مصروف ہیں کہ وہ اسلام کو ایک خشن اورسنگدل دین کے طور پر پیش کریں اور مسلمانوں خاص کر ایرانی مسلمانوں کو دہشت گرد ،بے منطقی اور خشونت طلب کے عنوان سے پیش کریں ؛اب اگر ان حالات میں ہم یہ چاہیں کہ چور کے ہاتھ کاٹنے یا زنا کار کو سنگسار کرنے جیسے احکام کو جاری کریں تو لازمی طور پر دنیا کے لوگوں کے ذہن میں اس کا منفی اثر ہوگا اور مغربی رسالے اور جرائد ان کی تصویر کشی کرکیاسلام اور مسلمانوں کے چہروں کو بہت ہی بری اور نفرت انگیز انداز سے دنیا والوں کے سامنے پیش کریںگے ۔

 

یہ بات ظاہر ہے کہ اگر دنیا کے سامنے اسلام اس طرح پیش ہوا تو ہم اسلام اور قرآن کے پیغام کو دنیا والوں تک نہیں پہونچا پائیں گے اور کوئی شخص اسلام کی طرف مائل نہ ہوگاسوال یہ ہے کہ کیا ہم مذکورہ مسائل کے سبب ایک بڑی اوراہم مصلحت (یعنی اسلام کی ترویج اور تبلیغ ) کی خاطر بعض اسلامی احکام میں تغیر و تبدل انجام دے سکتے ہیں؟ جیسے قتل کے بارے میں اسلام کا پہلا حکم یہ ہے کہ سو اونٹ دیت میں دئیے جائیں؛ لیکن آج ہم نے اس کے برابر دوسری چیز کو بنا لیا ہے اور وہ ستر لاکھ نقد روپیہ دیا جانا ہے اسی طرح کیا ہمارے لئے یہ ممکن نہیں ہے کہ ہم چند جگہوں پر اس کے برابر کوئی دوسری چیز معین کرکے اسلام کی جو کریہہ صورت پیش کی جاتی ہے اس کو دور کر دیں اور لوگوں کو اسلام کے دائرہ میں داخل کریں ۔

 

جواب : البتہ اس کا جواب دینے کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر جملہ پر بحث کی جائے؛ لیکن پھر بھی جس قدر یہاں ممکن ہوگا وہ مطلب بیان کروں گا ۔

 

یہ بات جو سوال میں بیان کی گئی کہ ہم اس وقت اسلامی ملک میں اسلام کو بیان کر رہے ہیں اور تقریباً نوّے فیصد ی سے زیادہ وہ لوگ ہیں جو اسلام کو قبول کرتے ہیں اور یہاں پر کسی انحراف اور پریشان ہونے کی گنجائش نہیں ہے ، اس کے جواب میں ہم کہیں گے کہ افسوس کے ساتھ ایسی بات نہیں ہے بلکہ حقیقت اس کے بر عکس ہے ۔ آج جبکہ ابھی انقلاب کو زیادہ وقت نہیں گذرا ہے اور ہرروز ریڈیو اور ٹیلیویژن سے امام خمینیکی تقریریں نشر ہوتی ہیں؛ لیکن پھر بھی ہم اپنی آنکھوں سے اس بات کو دیکھتے ہیں کہ بعض تقریروں اور مضامین میں امام خمینیکی باتوں کو کم یا زیادہ کرد جاتا ہے آپ خود اسی ملک میں ایک اخبار کو دیکھتے ہیں کہ اس کا سرپرست ایک عالم دین ہے لیکن پھر بھی اسلام اور قرآن کے واضح احکام کے خلاف مطلب اس میں چھپتا ہے ، خلاصہ یہ کہ مختلف بہانوں سے اس بات کی کوشش ہو رہی ہے کہ جوانوںپر اثر انداز ہوا جائے اور ان کے دل میں شک و شبہ پیدا کیا جائے لہذٰا ہم کو خود اپنے ملک میں اسلام کو پہچنوانے کے سلسلے میں بہت تشویش ہے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next