اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



(٢) سورہ مائدہ :آیہ ٥٤۔

ختم ہونا چاہئے ۔ ہم کو نہیں چاہئے کہ دوسروں کی خوشی اور چاپلوسی کے لئے بعض قرآنی اور اسلامی احکام و قوانین کو قبول کریں اور بعض کا انکار کریں ۔ بعض کا انکار اور بعض کا اقرار بھی حقیقی کفر ہے ، اسی کی حکایت خدا وندعالم قرآن مجید کر رہاہے : '' انّ الّذین ۔۔۔ ویقولون نومن ببعض و نکفر ببعض اولٰئک ھم الکافرون حقاًّ'' (١) یعنی جو لوگ .....اور کہتے ہیں کہ ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکارکریں گے .....تو حقیقت میں یہی لوگ کافر ہیں ۔مسلمان اگر واقعاً مسلمان ہے اور قرآن پر اعتقاد رکھتا ہے تو وہ عالمی حقوق انسانی کی خاطر قرآن کریم کے واضح حکم سے چشم پوشی کرے اور اپنے دین کو انسانی عالمی حقوق کے بیانیہ کے بدلے میں بیچ ڈالے یہ ہرگز نہیں ہو سکتا ہے ۔

اگریہ ہوکہ جو کام لوگوں کو اچھا نہ لگتا ہو وہ انجام نہ دیا جائے تو رسول اکرم(صلی الله علیه و آله وسلم)لات و عزّی کو برا نہ کہتے اور مکہ کے بتوں کو نہ توڑتے؛ قرآن مجید کادستور یہ ہے کہ تم کھلے عام خدا اور اس کے دین کے دشمنوں سے بیزاری کا اعلان کرو اور زبان وکلام سے بھی دافعہ رکھتے رہو۔ اس ضمن میں قرآن کریم حکم دیتا ہے تم عمل میں حضرت ابراہیم کی ذات کو نمونہ عمل قراردو :''و قد کانت لکم اسوةحسنة فی ابراہیم و الذین معہ ' (٢)یقیناًتمھارے لئے ابراہیم کی ذات اور ان کے ساتھیوں

..............

(١) سورہ نساء : آیہ ١٥٠و١٥١۔

(١) سورہ ممتحنہ :آیہ ٤۔

میں بہترین نمونہ عمل ہے حضرت ابراہیم اور ان کے ماننے والوں کا عمل اور فعل کیا تھا کہ وہ ہم لوگوں کے لئے نمونہ عمل ہے ؟ اس کا جواب اسی کے بعد فوراً خود قرآن مجید نے ذکر کیا ہے :''اذ قالوا لقومھم انّا برآوا منکم و ممّا تعبدون من دون اللہ و کفرنابکم ''(١) جب انھوں نے اپنی قوم والوں سے کہا کہ ہم تم سے اور تمھارے معبودوں سے بیزار ہیں اورہم نے تمھارا انکار کر دیا ہے قرآن مجید حکم دیتا ہے کہ ابراہیم کی پیروی کرو ؛ جب وہ لوگوں کے مقابل بہت ہی واضح انداز سے کھڑے رہے اور کہا کہ میں تم لوگوں سے بیزار ہوں اور تمھارے خدائوں سے بھی بیزار ہوں ؛یہ قرآن کا دستور اور اس کا حکم ہے ، نہ یہ کہ ہم کو لچکدار رویہ اختیار کرنا چاہئے اور یہ کہیں کہ ہم کو لوگوں کی سنت اور روش کا احترام کرنا چاہئے اور ان کے بتوں کے سامنے جاکر احترام کرنا چاہئے چونکہ ان کے نزدیک بت قابل احترام ہیں !!!قرآن اس کی اجازت کسی کو نہیں دیتا ہے ۔مسلمانوں کو چاہئے کہ واضح انداز سے کہے بت کچھ بھی نہیں؛ اسی آیہ میں اس نے آگے بڑھ کر کہا صرف اسی پر خاموش نہیں رہنا چاہئے ؛بلکہ اس سے بھی زیادہ سختی اور تلخی کے ساتھ یہ کہو: وبدا بیننا وبینکم العداوة والبغضاء ابداً حتیّٰ تومنوا باللہ وحدہ (٢)اور ہمارے تمھارے درمیان ہمیشہ کی عداوت اور

..............

(١) اور (٢)سورہ ممتحنہ: آیہ ٤۔

دشمنی ہو گئی ہے جب تک تم اللہ واحد پر ایمان نہیں لاتے ہم کو یہ کہنا چاہئے کہ جب تک تمھارا ایسا عمل اور ایسی فکر رہے گی ؛ہم تمھارے دشمن ہیں اور یہ دشمنی کبھی ختم نہیں ہوگی ؛ہم کو یہ کہنا چاہئے :تم پر لعنت اور تمھارے بتوں پر لعنت ہو ؛اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے خدا وندعالم قرآن مجید میں ارشاد فرمارہا ہے: اف لکم و لما تعبدون تم پر اور جو کچھ تم پوجتے ہو ان سب پر تف اور وائے ہو؛ یہ نظریات اور با تیں ایک سر پر عمامہ رکھنے والے یزدی بندہ کی نہیں ہیں ،بلکہ یہ قرآن کا واضح حکم ہے کہ ان دشمنوں سے کہہ دو ہم تمھارے ہمیشہ دشمن رہیں گے اور تم سے کینہ و دشمنی ہمیشہ رکھیں گے ، مگر یہ کہ تم لوگ خدا کی طرف آئو ؛مسئلہ اس وقت اور دلچسپ نظر آتاہے، جب ہم آیہ کے بعد کے حصّہ کو دیکھتے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم کو ابرہیم کا اتباع کرنا چاہئے اور ان کے عمل کو نمونہ عمل قرار د ینا چاہئے یہاں پر ایک چیز کو اس سے جدا کیا گیا ہے کہ ابراہیم کے اس کام کو تم نہ کرو : '' الّااقول ابراہیم لا بیھا لا ستغفرنّ لک'' ،صرف ابراہیم کا یہ کہنا اپنے چچاسے کہ میں تمھارے لئے خدا سے ضرور آمرزش طلب کروں گا ،ابراہیم جو کہ دشمن کے مقابلہ میں پوری قاطعیت کے ساتھ تھے لیکن اپنے چچا



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next