اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



انبیاء کا سب سے پہلا کام لوگوں کو حق کی طرف دعوت دینا ہے؛ ان کو سب پہلا کام یہ کرنا تھا کہ لوگ ان کی باتوں کو سنیں اور اس بات کو محسوس کریں کہ انبیاء کیا کہتے ہیں اس کے بعد کا مرحلہ یہ تھا کہ لوگ اس پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟

اس پہلے مرحلے یعنی دعوت تبلیغ اور پیغام پہونچانے میں کچھ بھی شک و شبہ نہیں ہے کیونکہ انبیاء لوگوں کے لئے منطق اور برہان و استدلال لیکر آئے تھے اور قرآن مجید کی آیہ اس پر دلالت کرتی ہے ''ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة والموعظة الحسنة'' (١)یعنی لوگوں کو پرور دگار کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دو ؛دعوت تبلیغ ، حکمت اور منطق و دلیل کے ساتھ ہونی چاہئے تاکہ اس میں جاذبہ پیدا ہو؛ اس مرحلہ میں دافعہ کا کوئی سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ہے ۔

لیکن واقعیت اور حقیقت یہ ہے کہ تمام انسان ایک جیسے نہیں ہیںکہ حکمت ودلیل اچھی طرح سمجھ لیں؛ اگر ہم خود اپنے کو دیکھیں جس دن سے ہم نے اپنے کو پہچانا

..............

(١) سورہ نحل :آیہ١٢٥۔

ہے ہم نے سنا ہے کہ ایک دین اسلام اور ایک مذہب شیعہ نام کا پایا جاتا ہے اور ہم نے اس کو قبول کیا ہے؛ لیکن کیا ہم نے حقیقت میں کبھی اس بات پر غور کیا اور سوچا کہ اس کی عقلی دلیل کیا ہے ؟ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں نے اجتماعی اسباب اور عوامل سے متاثر ہو کر شیعہ مذہب کو قبول کیا ہے؛ اور اصلاً ان لوگوں نے اس سلسلہ میں کوئی تحقیق اور جستجو نہیں کی ہے اور نہ اس کی کوئی دلیل تلاش کی ہے ؛ہاں مجلس ،اسکول اور مدرسے میں کبھی اس سلسلے میں کچھ پڑھا اور سنا ہے لیکن خود سے اپنے اندر ابتدائی طور پر یہ جذبہ اور خواہش نہیں ہوئی کہ اس بارے میں جاکر تحقیق اور جستجو کریں ، اگر ہے بھی تو بہت کم لوگوں میں ۔اکثر لوگ جذبات اور احساسات سے متاثر ہوکر یا مادی اور معنوی جذبوں کے تحت حرکت کرتے ہیں منطق اور دلیل کے ساتھ بہت کم لوگ متوجہ ہوتے ہیں؛ عام انسانوں کے اندر جو چیز اصلی محرّک ہے وہ فائدہ یا نقصان اور خوف یاامیدہے وہی چیز جو کہ اسلامی تہذیب میں خوف ورجا کے نام سے پائی جاتی ہے یعنی انسان کسی چیز سے خوف رکھتا ہے یا اس چیز میں اس کا کوئی فائدہ ہوتا ہیتو وہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہے یا یہ کہ اس چیز میں دولت ، بلندی اور شہرت تو اس کی طرف قدم بڑھاتا ہے یا پھر یہ کہ بھوک ، بیکاری، تازیانہ، قید خانہ اور سزا کے خوف کی وجہ سے مجبور ہو کر اس کام کو کرتا ہے، یہ مثل بہت مشہور ہے کہ انسان خوف و امید کی وجہ سے زندہ ہے ؛عام طور سے یہ خیال پایا جاتا ہے کہ اگر سبق اور درس پڑھے گا تو اس کی وجہ سے دوستوں اور ساتھیوں سے پیچھے نہیں رہ جائے گا یا تعلیم اس لئے حاصل کرتا ہے کہ اس کے بعد کوئی مفید کام کرے گا اور پیسہ وغیرہ کما سکے گا یا اس لئے کہ سبق پڑھ کر ماں باپ کی ڈانٹ پھٹکار اور دوسروں کے طعنہ سے محفوظ رہے گا کیونکہ اکثر لوگ ایسے ہی ہیں ،لہذٰا جیسا کہ آیہ کریمہ میں ہے کہ پہلے حکمت کا لفظ ہے اور اس کے بعد موعظہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے ''ادع الیٰ سبیل ربّک با لحکمة و الموعظةالحسنة''یعنی برہان و دلیل کے ساتھ یہ بھی کہتے ہیںکہ اگر اس کام کو انجام دو گے اور کرو گے تو اس سے یہ فائدہ حاصل ہو گا اور اگر اس کام کو نہیں کروگے تو یہ نقصان ہو گا یا اس کے بر عکس اگر اس کام کو کروگے تویہ نقصان ہوگا اور اس کو چھوڑ دو گے تو تم کو یہ فائدہ ہوگا ۔

اگر قرآن کریم میں انبیاء کے اوصاف کا ہم غور سے مطالعہ کریں تو ان کی صفتوں میں بہت سی جگہوں پر مبشر اور منذر کالفظ آیا ہے کہ انبیاء بشارت اور انذار کے لئے آئے ہیں، خدا وند عالم قرآن کریم میںفرماتا ہے '' وما نرسل المرسلین الاّ مبشرین و منذرین '' (١)ہم نے پیامبروں کو صرف مبشر اور منذر بنا کر بھیجا ہے یعنی وہ صرف بشارت دینے والے اور ڈرانے والے ہیں ۔

انبیاء نے دعوت اور تبلیغ کے مرحلے میں صرف برہان و دلیل (حکمت )پر اکتفا نہیں کیا بلکہ وہ ،جس کو میں نے پہلے بیان کیا او ر شروع میں مختصر طور سے اس کی

..............

(١) سورہ انعام آیہ ٤٨.



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next