اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود



البتہ یہ بات فراموش نہیں ہونی چاہئے کہ ہماری اصل بحث جیسا کہ میں نے اس کو شروع میں بھی عرض کیا اسلام میں جاذبہ اور دافعہ سے متعلق تھی اور میں نے عرض بھی کیا کہ اس کو تین طرح سے پیش کیا جا سکتا ہے :

(١) یہ کہ اسلام کے مجموعی عقائد واخلاق، احکام ا ور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کو صرف کچھ چیزوں کے جذب کرنے پر مجبور کرتے ہیں یا فقط دفع کرنے پریا یہ دونوں قسمیں پائی جاتی ہیں ۔

(٢) اسلام کے احکام اور دستورات ایسے ہیں کہ انسان کے لئے صرف جاذبہ رکھتے ہیں یا صرف دافعہ یاپھر جاذبہ اور دافعہ دونوں رکھتے ہیں ۔

(٣) اسلام لوگوں کوجب اپنی طرف اور ان کی تربیت کی دعوت دیتا ہے تو صرف جذبی راستوں کا انتخاب کرتا ہے یا فقط دفعی راستوں اور طریقوں کو، یا دونوں راستوں کو اختیار کرتا ہے ۔ ہم نے اس جلسے میں جو کچھ کہا اصل میں وہ اس بحث کا مقدمہ تھا اور تینوں سوالات ابھی بھی باقی ہیں جن کے بارے میں آئندہ جلسوں میں بحث اور گفتگو ہو گی۔

سوال اور جواب

سوال : جسم کے بارے میں یہ مسئلہ ہے کہ اس کے اندر معین مقدار میں غذا کو جذب کرنے کی صلاحیت پائی جاتی ہے اگر اس سے زیادہ وہ کھانا کھائے گا تو اس کے لئے نقصان کا سبب بنے گا اور وہ دافعہ کی حالت کوپیدا کرے گا۔ کیا روح اور اس کی غذا کے بارے میں بھی یہی محدودیت اور حد بندی ہے ؟

 

جواب : سوال بہت اہم ہے اور یہ سوال فلسفہ اخلاق Ú©Û’ مشہورمکتب فکرسے جس کا نام'' مکتب اعتدال ''ہے تعلق رکھتا ہے اس مکتب فکر Ú©Û’ طرف دار لوگ اس بات Ú©Û’ معتقد ہیں کہ اخلاقی فضائل Ú©Û’ باب میں فضیلت کا معیار اعتدال ہے؛ زیادہ بڑھ جانا یا Ú©Ù… ہونا نقصان دہ ہے Û” فطری اور طبعی طور سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بعض چیزیں کوئی خاص حد نہیں رکھتی ہیں؛ جتنی زیادہ ہو Úº بہترہے جیسے خدا Ú©ÛŒ محبت ،عبادت ،علم اور بہت سی ایسی چیزیںہیں ان جیسی چیزوں میں اعتدال Ú©Û’ کیا معنی ہیں ؟؛جو سوال یہاں پر پیش ہوا ہے وہ بھی اسی جیسا ہے جس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات صحیح ہے کہ فضائل کا حاصل کرنا کوئی حد اور انتہا نہیں رکھتا لیکن مسئلہ یہاں پر یہ ہے کہ انسان دنیا میں محدود طاقت کا مالک ہے ۔اگر وہ صرف کسی ایک چیز Ú©Û’ لئے اپنی پوری طاقت Ú©Ùˆ صرف کر دے گا تو دوسری چیزوں سے محروم ہو جائے گا ؛اگر ہم صرف عبادت کرنے لگیں اور کھانے ØŒ آرام اور اپنے بدن Ú©ÛŒ سلامتی Ú©ÛŒ فکرنہ کریں تو ہمارا جسم بیکار ہو جائے گا اور عبادت Ú©ÛŒ طاقت Ùˆ ہمت بھی ہم سے Ú†Ú¾Ù† جائے Ú¯ÛŒ ؛یعنی ہماری عبادت میں بھی خلل Ù¾Ú‘Û’ گا اور ہمارا جسم بھی بیمار Ù¾Ú‘ جائے گا ۔یا یہ کہ خدا کا ارادہ انسان Ú©ÛŒ نسل Ú©Ùˆ باقی رکھناہے اور یہ مسئلہ بھی اس بات پر منحصر اورمتوقف ہے کہ ہم شادی بیاہ کریں ،ازدواجی رابطہ Ú©Ùˆ برقرار رکھیں ؛بچوں Ú©ÛŒ تربییت کریں خلاصہ یہ کہ ایک خاندان Ú©Ùˆ چلانے اور اس Ú©ÛŒ ضرورتوں Ú©Ùˆ پورا کرنے Ú©Û’ لئے یقینی طور پر بہت سی قوتوں اور اپنے وقت Ú©Ùˆ خرچ کرنا Ù¾Ú‘Û’ گا؛ اگر انسان صرف معنوی اور اخلاقی مرتبے Ú©ÛŒ بلندی Ú©ÛŒ فکر میں رہے گا اور کوئی بھی اہتمام خاندان اور بیوی بچے سے متعلق نہ کرے تو انسانی نسل ختم ہو جائے Ú¯ÛŒ یا برباد ہو جائے Ú¯ÛŒ ۔یا مثلاً اگر کوئی یہ چاہتا ہے کہ میدان جنگ میں حاضر رہے تو وہ زیادہ عبادات اور مستحبات Ú©Ùˆ انجام نہیں دے سکتا ۔لہذٰاچونکہ انسان دنیا میں کئی قسم Ú©Û’ وظائف اور ذمہ دااریوں Ú©Ùˆ رکھتا ہے اس Ú©ÛŒ قوت Ùˆ طاقت بھی محدود ہے ؛لہذٰا اپنی طاقت Ùˆ قوت Ú©Ùˆ ان Ú©Û’ درمیان تقسیم کرے اور ہر حصّہ میںضرورت بھراس طرح صرف کرے کہ بعض دوسری چیزوں سے مزاحمت کا سبب نہ بنیں ان Ú©Û’ لئے خرچ کرے؛ البتہ یہ انسان Ú©Û’ لئے ممکن ہے کہ وہ ایسا کام کرے کہ اس Ú©ÛŒ پوری زندگی نماز Ùˆ قرآن سے لیکر کھانے پینے اور روز انہ Ú©Û’ معمولی کاموںتک بھی لمحہ بہ لمحہ خدا وند عالم سے قریب ہونے کا باعث بنے اور وہ بلندی Ú©Û’ درجات Ú©Ùˆ حاصل کرتا جائے Û”     

 

اسلام میں جاذبہ اور دافعہ کے حدود (٣) پچھلی بحثوں پر سرسری نظر



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 next