حضرات معصومین علیهم السلام کے منتخب اخلاق کے نمونے (2)



عمر بن خطاب کی نسل سے ایک شخص مدینہ میں تھا جو ھمیشہ امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو تکلیف پہنچاتا رہتا تھا اور جب بھی آپ کو دیکھتا تھا آپ کی شان میں گستاخی کرتا تھا اور حضرت امیر الموٴمنین علی علیہ السلام کے بارے میں بدگوئی کیا کرتا تھا!

ایک روز آپ کے اصحاب نے آپ سے کہا: یابن رسول الله! ھمیں آزاد چھوڑ دیجئے تاکہ اس بدکار کا کام تمام کردیں، لیکن امام علیہ السلام نے ان کو اس کام سے سختی کے ساتھ منع کیا ۔

امام علیہ السلام نے اس شخص کے حالات معلوم کئے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ مدینہ میں کاشتکاری کرتا ھے، امام علیہ السلام ایک سواری پر سوار ھوئے اور اس کی طرف روانہ ھوئے اور وہ اپنے کھیت پر مل گیا، امام علیہ السلام سواری کے ساتھ اس کے کھیت میں وارد ھوگئے، وہ شخص چلایا کہ ھماری فصل پر نہ چلو، لیکن آپ سواری پر ھی آگے بڑھتے رھے یہاں تک کہ اس کے پاس پہنچ گئے، سواری سے اترے اور اس کے پاس بیٹھ گئے، خندہ پیشانی اور کشادہ روئی سے گفتگو کرنے لگے اور اس سے کہاکہ: اپنی فصل کے لئے کتنا خرچ کیا ھے؟ اس نے کہا: مجھے نھیں معلوم، امام علیہ السلام نے فرمایا: تمھیں اس فصل سے کتنا ملنے کی امید ھے؟ اس نے کہا: امیدوار ھوں کہ دو سو دینارمجھے مل جائیں گے، امام علیہ السلام ایک تھیلی کہ جس میں تین سو دینار تھے اس کو عطا کئے اور فرمایا: اس فصل سے بھی خدا تمہاری امید کو پوری کرے، وہ شخص اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے آپ کی پیشانی کا بوسہ دیا اور آپ سے درخواست کی کہ میری گستاخی معاف فرمائیں۔

امام علیہ السلام نے ایک تبسم فرمایا جو راضی ھونے کی عکاسی کرتا تھا اور واپس پلٹ گئے۔

راوی کا کہنا ھے: امام علیہ السلام مسجد میں گئے تو دیکھا وھی شخص مسجد میں بیٹھا ھوا ھے، اس نے جیسے ھی آپ کو دیکھا تو اس نے کہا: خدا بہتر جانتا ھے کہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے اس شخص کے منھ سے امام کی تعریف سن کراس کے دوست جمع ھوگئے اور کہنے لگے کہ: واقعہ کیا ھے؟ تواس سے پھلے بد گوئی کیا کرتا تھا! اس نے کہا: بے شک جو کچھ میں نے اب کہا اس کو تم لوگوں نے سنا اور ان کے ساتھ امام علیہ السلام کے بارے میں بحث و گفتگو کی، اوروہ اس کے ساتھ مجادلہ اور مقابلہ کے لئے کھڑے ھوگئے!

جب امام علیہ السلام بیت الشرف تشریف لائے تو اپنے ان اصحاب سے کہا جو اس شخص کو قتل کرنا چاہتے تھے کہ: اس کے سلسلہ میں جو تم چاہتے تھے بہتر تھا یا جو میں چاہتا تھا وہ بہتر تھا؟ میں نے اس کا کام تھوڑی سی مقدار میں اصلاح کردیا اور اس کے شرّ کا خاتمہ کردیا۔[29]

بے نظیر بخشش

منصور دوانیقی نے حضرت امام موسیٰ کاظم علیہ السلام سے چاہا کہ نوروز کی مبارک باد اور اس کے پیش کئے جانے والے تحفوں کے لئے (آپ کے پاس) بیٹھیں۔

امام علیہ السلام نے فرمایاکہ: میں نے حضرت رسول اکرم (صلی الله علیه و آله و سلم) کی احادیث میں جستجو اور غور کیا ھے، مجھے اس عید کے لئے کوئی حدیث دکھائی نھیں دی، اس دن عید منانا ایرانیوں کی رسم ھے اور اسلام نے اس کو نابود کردیا ھے اور ھم خدا کی پناہ مانگتے ھیں کہ جس کو اسلام ختم کرے اس کو زندہ کریں۔

منصور نے کہا: میں اس کام کو لشکر کے لئے سیاست کے طور پر انجام دیتا ھوں ، آپ کو خدائے بزرگ کی قسم دیتا ھوں کہ آپ بیٹھ جائیں، امام علیہ السلام بیٹھ گئے حکّام، امیر اور سرداران لشکر امام علیہ السلام کے پاس سے گزرتے تھے اور مبارک باد پیش کرتے تھے اور آپ کی خدمت میں تحفے پیش کرتے تھے، اور منصور کا خادم آپ کے پاس کھڑا ھواان تحائف کو شمار کر رہا تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 23 24 25 26 27 28 29 30 31 32 33 34 35 36 37 38 39 40 41 42 43 44 45 next