انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)

 

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ رب العالمین والصلواة والسلام علی سیدالانبیآء والمرسلین والہ الطاھرین

انسانی رفعت

لَقَدْ خَلَقْناَ الْاِنْساَنَ فِی اَحْسَنِ تَقْوِیْم(سورہ تین ۴)

یہ قرآنی آیت انسان کے اشرف المخلوقات ھونے کی دلیل ھے چونکہ دنیا نے انسان کے صحیح مقام کو نہ سمجھا، اس لئے اس کے کردار کا بھی صحیح تعین نہ ھو سکا اور نقطھٴ نگاہ میں بلندی پیدا نہ ھو سکی ۔

ظاھر ھے کہ ھمیشہ مقصد ذریعہ سے اونچا ھوتا ھے جو شئے پست ھو گی اس کا مصرف اسی نسبت سے پست ھو گا اور جو چیز بلند ھو گی اس کا مقصد اسی لحاظ سے بلند تر ھو گا

اگر انسان اپنے درجہ و مقام کو سمجہ لے تو اپنے مقصدِ ھستی اور مصرفِ زندگی کی بلندی کا احساس ھو جائے گا اور یھی اس کی بلندکرداری کی ضمانت ھو گی ۔ پھر اسی ایک چیز کے سمجہ لینے سے اس کی حقیقی ترقی اور تنزلی کا سمجھنا بھی آسان ھو جائے گا اس لئے کہ ھر شے کی ترقی اس خصوصیت امتیازی کے ارتقاء کے ساتھ ھے جو اس شے کا جوھر خصوصی ھے ۔

انسان اگر تمام دوسری کائنات سے الگ کوئی شے ھوتا تو اس کا سمجھنا آسان ھوتا مگر یہ تو باقی کائنات کے ساتھ بھت سی مشترک حیثیتوں میں متحد ھے یہ جسم رکھتا ھے اس اعتبار سے پتھروں کے ساتھ حصہ دار ھے ۔ نشوونما رکھتا ھے اس لحاظ سے درختوں کے ساتھ ھم مرتبہ ھے ۔ احساس و حرکت ارادی رکھتا ھے اس حیثیت سے حیوانوں میں شامل ھے اور پھر کوئی خاص جوھر رکھتا ھے جس کی بدولت یہ انسان ھے اور ان سب سے ممتاز ھے ۔

انسان کو اگر ان پھلوؤں کے لحاظ سے دیکھا جائے جو دوسروں کے ساتھ مشترک ھیں تو اسے اشرف المخلوقات سمجھنا ھی غلط معلوم ھو گا اس لئے کہ ان تمام چیزوں میں وہ دوسروں سے کم نظر آئے گا۔ بلند محسوس بھی نہ ھو گا۔ جسمیت میں وہ پھاڑوں کے برابر نھیں ھے ۔ نشوونما میں درختوں کے مثل نھیں ۔ قوت سامعھ، باصرہ یا شامہ اکثر حیوانات کی انسان سے بھت زیادہ طاقتور ھے معلوم ھوتا ھے کہ اس کا برتر ھونا ان مشترک جھات کے لحاظ سے نھیں ھے بلکہ اس کی بلندی اس مخصوص جوھر کے لحاظ سے ھے جو اس میں ھے اور کسی دوسرے میں نھیں ھے وہ کیا چیز ھوسکتی ھے؟ علم اور عمل ۔



1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next