انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


حسن کے ھاتہ میں جمل کی لڑائی میں تلوار اسی طرح پھلی بار ھے جس طرح بدر میں علیع کے ھاتہ میں پھلی بار۔ مگر جیسے انھوں نے پھلی ھی لڑائی میں شجاعان آزمودہ کار پر اپنی فوقیت ثابت کر دی ویسے ھی جمل میں جو کارنامہ دوسروں سے نھیں ھوتا وہ حسن مجتبیٰ(ع)اپنی تلوار سے کرکے دکھا دیتے ھیں ۔

اسی طرح صفین میں ایسا معیاری نمونہ پیش کرتے ھیں کہ حضرت امیرع اپنے فرزند محمد حنیفھع کے لئے اسے مثال قرار دیتے ھیں او جیسا کہ دینوی نے ’الاخبارالطوال“ میں لکھا ھے ایک ایسے موقع پر جب لشکر امیرالمومنینع کے ایک بڑے حصہ نے شکست کھائی تھی، یہ اپنے باپ کے سامنے اس طرح تھے کہ انھیں تیروں سے بچا رھے تھے اور خود اپنے کو تیروں کے سامنے پیش کئے دیتے تھے ۔

مخالف حکومت کا پروپیگنڈا بھی کیا چیز ھے؟ اس نے حکایتیں تصنیف کی ھیں کہ حسن مجتبیٰ(ع)تو طبعاً صلح پسند تھے ۔ مگر ان کی بے جگری کے ساتھ ان نبردآزمائیوں میں عملی شرکت ان تصورات کو غلط ثابت کر دیتی ھے ۔

جنگ جمل میں کوفہ والوں کو ابو موسیٰ اشعری نے جو وھاں حاکم تھے نصرت امیرالمومنینع سے روک دیا تھا۔ یہ حسن مجتبیٰ ھی تھے جنھوں نے جا کر تقریر کی اور پورے کوفہ کو جناب امیرع کی نصرت کے لئے آمادہ کر دیا۔

ھاں جب صفین میں نیزوں پر قرآن اٹھائے گئے اور امیرالمومنینع نے حالات سے مجبور ھو کر معاھدہ تحکیم پر دستخط کئے تو جوان سال بیٹے حسنع و حسینع دونوں باپ کے ساتھ اس معاھدہ میں بھی شریک تھے بالکل جس طرح حضرت امیر پیغمبر خدا کے ساتھ ساتھ تھے جنگ اور صلح دونوں میں ۔ اسی طرح حسنع و حسینع اپنے والد بزرگوار کے ساتھ ھر منزل میں شریک نظر آتے ھیں ۔

جب ۲۱ ماہ رمضان ۴۰ ہ کو جناب امیرع کی وفات ھو گئی اور حضرت امام حسنع خلیفہ تسلیم کئے گئے تو آپ نے خود بھی حاکم شام کے خلاف فوج کشی کی ۔ اور فوجوں کو لے کر روانہ بھی ھوئے اور اس طرح بھی ثابت کر دیا کہ راستہ آپ کا وھی ھے جو آپ کے والد بزرگوار کا راستہ تھا۔

اب اس کے بعد جو کچھ ھوا وہ حالات کی تبدیلی کا نتیجہ ھے ۔ واقعہ یہ ھے کہ اھل کوفہ کی اکثریت جنگِ نھروان کے بعد سے جناب امیرع کے ساتھ ھی سردمھری برتنے لگی تھی اور جنگ سے عاجز آچکی تھی جس پر خود حضرت علی بن ابی طالبع کے اقوال جو نھج البلاغہ میں مذکور ھیں، گواہ ھیں اس کا علم حاکم شام کو بھی اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے ھو گیا تھا چنانچہ حضرت امیرع کے بعد انھوں نے اپنے آدمیوں کے ذریعہ سے بھت سے روسائے کوفہ کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ان لوگوں نے خطوط بھیجے کہ آپ عراق پر حملہ کیجئے اور ھم یھاں ایسی تدبیر کریں گے کہ حضرت امام حسنع کو قید کرکے آپ کے سپرد کر دیں ۔

معاویہ نے یہ خطوط بعینہ حضرت امام حسن(ع)کے پاس بھیج دیئے ۔ پھر بھی وہ جانتے تھے کہ حضرت امام حسنع کوئی ایسی صلح کبھی نہ کریں گے جس میں ان کے نقطھٴ نظر سے حق کا تحفظ نہ ھو ۔ اس لئے انھوں نے اس کے ساتھ ایک سادہ کاغذ بھیج دیا کہ جو شرائط آپ چاھیں اس پر لکہ دیں میں انھیں منظور کرنے کے لئے تیار ھوں ۔ ان حالات میں جب کہ اپنوں کا حال وہ تھا اور مخالف یہ رویہ اختیار کر رھا تھا جنگ پر قائم رھنا ایک بلاوجہ کی ضد ھوتی جو آلِ رسول کی شان کے خلاف تھی ۔

حضرت پیغمبر خدا نے تو حدیبیہ میں امن وامان کی خاطر مشرکین کے پیش کردہ شرائط پر صلح کی جسے سطحی نگاہ والے مسلمان سنجھ رھے تھے کہ یہ دب کر صلح ھے اور امام حسن نے جو صلح کی وہ ان شرائط پر جو خود آپ نے پیش کئے تھے اور جنھیں فریق مخالف سے منظور کرایا۔

ذرا اس صلح نامہ کے شرائط میں نظر ڈالئے ۔ اس کی مکمل عبارت علامہ ابن حجر مکی نے صوائق محرقہ میں درج کی ھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next