انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


انسانی کردار کی بلندی

انسان کی بلندی عقل و تدبر کے استعمال اور فرض شناسی میں ھے اس صفت کے کمال اور نقص سے اس کی بلندی اور پستی کے حدود متعین ھوتے ھیں یھی وہ تقویٰ ھے جسے قرآن نے معیارِ فضلیت بشری قرار دیا ھے ۔ ان اکرمکم عنداللّٰہ اتقاکم (یعنی) ”تم میں زیادہ صاحب عزت وہ ھے جو سب سے زیادہ پرھیزگار ھو ۔ “

فرائض ھمیشہ ایک ھی شکل و صورت پر نھیں ھوتے کوئی بڑے سے بڑا حکیم و دانشمند فرائض کی کوئی ایسی فھرست نھیں مرتب کرسکتا جو ھر شخص کے لئے ھر حال میں قابل ادائی ھو ۔ سچ بولنے ھی کو لیجئے ۔ یہ بے شک انسانی فرض ھے مگر کیا ھر موقع پر؟ مثال کے طور پر کوئی ظالم شمشیر بکف کسی مظلوم کے تعاقب میں ھو، وہ اس کی نظر بچا کر ھماری آنکھوں کے سامنے کھیں مخفی ھو جائے ۔ اب وہ ظالم ھم سے پوچھے کہ کیا تم نے دیکھا ھے وہ کس طرف گیا ھے؟ اب کیا ھمیں سچ بولنا چاھئے؟ یقیناً اگر ھم نے سچ سچ کھہ دیا تو ظالم کی تلوار ھو گی اور مظلوم کا گلا ھو گا، اور اس خونِ ناحق کی ذمہ داری ھمارے سچ پر ھو گی ۔

متعدد گناھان کبیرہ ھیں جو سچ سچ کھنے ھی سے وقوع میں آتے ھیں مثلاً نمامی یعنی لگائی بجھائی کرنا۔ چغلی کھانا۔ یہ سچ ھی ھوتا ھے جھوٹ نھیں ھوتا مگر وہ بھت بڑا گناہ ھے ۔ اسی طرح غیبت گناہ کبیرہ ھے ۔ وہ بھی سچ ھی کھنے سے ھوتی ھے معلوم ھوا کہ ھر صورت میں سچ کھنا فریضھٴ انسانی نھیں ھے ۔

اسی طرح امانت واپس کرنا۔ ضرور انسانی فریضہ ھے مگر اسی صورت میں کہ جب کوئی ظالم مظلوم کے قتل کا ارادہ رکھتا ھو اگر اس نے اپنی تلوار اتفاق سے ھمارے پاس بطور امانت رکھوائی ھو ۔ اب اس وقت وہ اپنی تلوار ھم سے مانگے تو ھرگز ھم کو نہ دینا چاھئے ورنہ ھم شریکِ قتل ھوں گے ۔

مذھبی حیثیت سے عبادات میں سب سے اھم نماز ھے لیکن اگر کوئی ڈوبتا رھا ھو او راس کا بچانا نماز توڑنے پر موقوف ھو تو نماز کاتوڑ دینا واجب ھو گا۔ اگر وہ ڈوب گیا اور نماز پڑھتے رھے تو یہ نماز بارگاہ الٰھی سے مسترد ھو جائے گی ۔ کہ میرا بندہ ڈوب گیا اور تم نماز پڑھتے رھے مجھے ایسی نماز نھیں چاھئے ۔ معلوم ھوا کہ فرائض اور عبادات باعتبارحالات و واقعات بدلتے رھتے ھیں ۔ فرائض کی یھی نگھداشت جوھرِ انسانیت ھے ۔

انسانِ کامل کی شان:

فرض شناس انسان کے افعال بتقاضائے طبیعت نھیں ھوتے بلکہ بتقاضائے فرض ھوتے ھیں اس کا عمل انتھاء پسندی کے دو نقطوں کے درمیان ھوتا ھے اسی کا نام عدل و اعتدال ھے، جو معیار حسنِ اخلاق ھے اور چونکہ عام افراد بشر عموماً طبیعتوں کے تقاضوں میں اسیر ھوتے ھیں اور افراط و تفریط میں مبتلاء اس لئے بلند افراد انسان کے خلاف عموماً دو طرف سے اعتراضات ھوتے ھیں ۔ ایک ادھر والے انتھاپسندوں کی طرف سے اور دوسرے ادھر والے انتھاپسندوں کی جانب سے مگر وہ کبھی ان اعتراض کی پروا نھیں کرتے انھیں تو فرائض کے ادا کرنے سے مطلب ھوتا ھے ۔

انسان کامل کے اعمال سطحی نگاہ رکھنے والوں کو بسااوقات متضاد نظر آتے ھیں مگر ان میں حقیقتاً کوئی تضاد نھیں ھوتا۔ بلکہ وہ مختلف حالات کے جداگانہ تقاضے ھوتے ھیں جو اس کے افعال میں ظاھر ھوتے ھیں ۔

اس کے لئے ھمارے سامنے چودہ سیرتیں موجود ھیں جن میں سب سے مقدم حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفی (ص)کی سیرتِ پاک ھے ۔

معراجِ انسانیت سیرتِ حضرت خاتم الانبیاء کی روشنی میں

آپ چالیس برس کی عمر میں مبعوث برسالت ھوئے ۔ ۱۳ سال ھجرت کے قبل مکہ کی زندگی ھے اور دس سال بعد ھجرت مدینہ کی زندگی ۔

یہ تینوں دور بالکل الگ الگ کیفیت رکھتے ھیں جن میں سے ھر دور بالکل یک رنگ ھے ۔ کسی تلون اور غیرمستقل مزاجی کا مظھر نھیں ھے مگر وہ سب دور آپس میں بھت مختلف ھیں ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next