انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


پھر بھی جب نویں تاریخ کی سہ پھر کو حملہ ھو گیا تو حضرت(ع) نے ایک رات کی مھلت لے لی ۔ جسے جنگ کرنا ھی مطلوب تھا وہ التوائے جنگ کی درخواست کیوں کرتا، مگر اس ایک رات کی مھلت کو حاصل کرکے بھی آپ نے اپنی امن پسندی کا ثبوت دیا اور دکھلا دیا کہ جنگ تو مجہ پر خواہ مخواہ عائد کی جا رھی ھے ۔ میں جنگ کا اپنی طرف سے شوق نھیں رکھتا ھوں ۔

پھر صبح عاشور کوئی دقیقہ موعظہ و نصیحت اور اتمام حجت کا اٹھا نھیں رکھا۔ خطبہ جو پڑھا وہ اونٹ پر سوار ھو کر اس لئے کہ وہ ھنگام امن کی سواری ھے گھوڑے پر نھیں سوار ھوئے جو جنگ کے ھنگام کا مرکب ھوتا ھے ۔

باوجودیکہ خطبہ کے جو جواب ملے وہ دل شکن تھے مگر اس کے بعد بھی آپ نے اس کا انتظار کیا کہ فوج دشمن کی طرف سے ابتداء ھو او جب پھلا تیر عمر سعد نے چلہ کمان میں جوڑ کر اپنی فوج سے مخاطب ھوتے ھوئے یہ کھہ کے لگایا کہ ”گواہ رھنا پھلا تیر فوج حسینی کی طرف میں رھا کر رھا ھوں۔“ اور اس کے بعد چار ھزار تیر کمانوں سے روانہ ھو گئے اور جماعت حسینی (ع) کی طرف آ گئے ۔ اس وقت مجبور ھو کر امام(ع) نے اذن جھاد دیا۔ اور اس کے بعد بھی خود اس وقت تک جھاد کے لئے تلوار نیام سے نھیں نکالی جب تک آپ کی ذات میں انحصار نھیں ھو گیا۔ جب تک ایک بھی باقی رھا آپ نے شمشیرزنی نھیں کی ۔ اور اس طرح پیغمبر کے کردار کی تفسیر کر دی جب کوئی نہ رھا اس وقت تلوار کھینچی اور یہ ایسا وقت تھا جب کسی دوسرے میں دم نہ ھوتا کہ وہ جنبش بھی کر سکتا۔ تین دن کی بھوک پیاس اور اس پر صبح سے سہ پھر تک کی تمازتِ آفتاب میں شھداء کے لاشوں پر جانا اور پھر خیمہ گاہ تک پلٹنا اور پھر بھتر کے داغ عزیزوں کے صدمے اور ان کی لاشوں کا اٹھانا۔ جوان بیٹے کا بصارت لے جانا اور بھائی کا کمر توڑ جانا۔ اور اپنے ھاتھوں پر ایک بے شیر کو دم توڑتے میں سنبھالنا اور نوک شمشیر سے ابھی ابھی اس کی قبر بنا کر اٹھنا…اب اس عالم میں جذباتِ نفس کا تقاضا تو یہ ھے کہ آدمی خاموشی سے تلواروں کے سامنے اپنا سر بڑھا دے اور خنجر کے آگے گلا رکہ دے مگر حسین(ع) اسلامی تعلیم کے محافظ تھے ظلم کے سامنے سپردگی آئین شریعت کے خلاف ھے ۔ حسین(ع) نے اب فریضھٴ دفاع کی انجام دھی اور دشمنانِ خدا کے مقابلہ کے لئے تلوار اٹھائی اور وہ جھاد کیا جس نے بھولی ھوئی دنیا کو حیدر صفدر کی شجاعت یاد دلا دی اور اس طرح دکھا دیا کہ ھمارے اعمال و افعال، جذبات نفس اور طبیعت کے تقاضوں کے ماتحت نھیں بلکہ فرائض و واجبات کی تکمیل اور احکام ربانی کی انجام دھی کے ماتحت ھوتے ھیں ۔ چاھے طبعی تقاضے اس کے کتنے ھی خلاف ھوں ۔

یھی انسانیت کی وہ معراج ھے جس کی نشاندھی حضرت امام حسین(ع) کے اسلاف کرتے رھے او روھی آج حسین(ع) کے کردار میں انتھائی تابانی کے ساتھ نمایاں ھیں ۔

سیرتِ ائمہ(ع) کے ہمہ گیر پہلو:

حضرت امام حسین(ع) کے بعد ۹ معصومین(ع) کی زندگی میں چند اقدار مشترک ہیں ۔ ایک یہ کہ پھر اس دور میں کسی خونریز اقدام کی ضرورت محسوس نہ کی گئی اور امن و خاموشی کو ہر حال میں مقدم رکھا گیا اور اب ان اقدار کے تحفظ کے لئے جو واقعہ کربلا نے ذہن بشر کے لئے قائم کر دیئے تھے اس واقعہ کی یاد کو قائم رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے جس کی تفصیل کے لئے ہمارا رسالہ ”عزائے حسین(ع) پر تاریخی تبصرہ ۔“ دیکھنے کے قابل ہے اور جس کا کامیاب نتیجہ عزاداری کے قیام و بقا کی شکل میں ہر شخص کے مشاہدہ میں ہے ۔

دوسرے اپنی زندگی کی اس خاموش فضا کو انہوں نے معارف و تعلیماتِ اسلامی کی اشاعت کے لئے وقف رکھا اور تاریخ کے سردگرم حالات کے ساتھ اپنے امکانات کے مدارج کو فعلیت کی منزل میں لاتے رہے جس کا حیرت انگیز نمونہ یہ سامنے ہے کہ سلطنت و اقتدار کی بے پناہ پشت پناہی کے ساتھ اکثریت کے محدثین و فقہا کی مجموعی طاقت کا فراہم کردہ جتنا ذخیرہٴ احادیث صحاح ستہ کی شکل میں موجود ہے اس سے زیادہ جبر و قہر کے شکنجوں میں گھرے ہوئے ان ائمہ اہل بیت علیہم اسلام کی بدولت کتبِ اربعہ کی شکل میں ملتِ جعفریہ کے ہاتھوں میں موجود ہے جس کا موازنہ کرنے پر بالکل وہ نمونہ سامنے آتا ہے کہ جیسے قرآن مجید کے پہلے تعلیمات انبیا(ع)ء کے جو مسخ شدہ مجموعے کتب سماوی کے نام سے موجود تھے ان کے ہوتے ہوئے قرآن نے آ کر یہ کام کیا کہ جو اصل حقائق ان کتب کے تھے ان کو خالص شکل میں محفوظ کر دیا اور جو مہملات و مزخرفات شان انبیا(ع)ء کے خلاف ان میں سے حارج کر دیئے گئے تھے ان سب کو دور کرکے حقانیت انبیا(ع)ء کی شان کو نکھار دیا۔ اسی طرح سوادِ اعظم کے متداول احادیث کے ذخیرہ میں جتنی اصلیتیں تھیں ان کو آلِ محمد علیہم السلام نے اپنے صداقت ریز بیانات کے ساتھ محفوظ و مستحکم بنا دیا اور ان کے ساتھ سلطنتِ وقت کے کاسہ لیس اور یاوہ گو راویوں نے جو ہزاروں اس طرح کی باتیں شامل کر دی تھیں جن سے شان رسالت بلکہ شان الوہیت تک صدمہ پہنچتا تھا ان سب کا قلع قمع کرکے دامن الوہیت ورسالت کو بے داغ ثابت کر دیا۔ اور خالص حقائق و تعلیمات اسلامیہ کو منضبط کر دیا۔ اس طرح جیسے کتب سماوی میں قرآن بحسب ارشاد ربانی مہیمن علی الکل ہے اسی طرح سلسلہٴ احادیث میں یہ ائمہ معصومین علیہم اسلام کے ذریعہ سے پہنچا ہوا ذخیرہ ہے جو حقائق اسلامیہ پر مہیمن کی حیثیت رکھتا ہے اور ان کے اس کارنامہ سے معلوم ہوتا ہے کہ کس لئے ان کو ثقلین کا جزو بنا کر قرآن کے ساتھ امت اسلامیہ کے اندر چھوڑا گیا اور ارشاد ہوا تھا کہ: ما ان تمسّکتم بھما لن تضّلو بعدی ”جب تک ان دونوں سے تمسّک رکھو گے گمراہ نہ ہو گے۔“

فقہ میں یہ حقیقت ہے کہ سوادِ اعظم نے قیاس کے وسیع احاطہ میں قدم رکھنے کے باوجود جس معیار تک اس فن کو پہنچایا فقہائے اہل بیت(ع) نے تعلیمات ائمہ کی روشنی میں قیاس سے کنارہ کشی کرنے اور قرآن و حدیث سے استناباطات کے تنگنائے میں اپنے کو مقید رکھنے کے باوجود اس سے بدرجہ بالاتر نقطہ تک اس فن کو پہنچا دیا۔ جس پر انتصار نہایہ اور مبسوط اور پھر تذکرة الفقہاء اور مختلف الشیعہ سے لے کر حدائق اور جواہر اور فقہ آقا رضا ہمدانی تک ایسی بسیط کتابیں گواہ ہیں جن کا عشر عشیر بھی سوادِ اعظم کے پاس موجود نہیں ہے ۔

تیسرے اس سو ڈیڑھ سو برس کی مدت میں امت اسلامیہ کے اندر کتنے انقلابات آئے حالات نے کتنی کروٹیں بدلیں ۔ ہواؤں کی رفتار کتنی مختلف ہوئی مگر ان معصومین(ع) کے اخلاق و کردار میں جو تعلیمات و اخلاقِ کے سانچے میں ڈھلے ہوئے تھے ذرہ بھر تبدیلی نہیں ہوئی ۔ نہ اپنے منہاج نظر کو بدلا اور نہ امن پسندی کے رویہ میں جسے اب مستقل طور پر سکوت و سکون کی شکل میں اختیار کر لیا تھا ذرہ بھر تبدیلی ہوئی ۔ ان دونوں باتوں کا ثبوت یہ ہے کہ ان میں سے ہر ایک ہستی کو ان کے دور کی حکومت نے اپنا حریف ہی سمجھا۔ اس لئے ان سے کسی حکومت نے بھی غیرمعترضانہ حیثیت اختیار نہیں کی ۔ یہ اس کا ثبوت ہے کہ وہ دنیاوی حکومت کے مقابل اس محاذ کے جو حضرت علی بن ابی طالب(ع)، حضرت حسن مجتبیٰ اور حضرت امام حسین(ع) کی نگہبانی میں قائم رہا تھا، برابر محافظ رہے اور اسی لئے باطل حکومت انہیں اپنا حریف سمجھتی رہی ۔ مگر کبھی حکومت کو ان کے خلاف کسی امن شکنی کے الزام کو ثابت کرنے کا موقع نہیں مل سکا اس لئے قید کیا گیا تو اندیشہٴ نقص امن کی بنا پر اور زندگی کا خاتمہ کیا گیا تو زہر سے جس کے ساتھ حکومت وقت کو اپنی صفائی پیش کرنے کا امکان باقی رہے ۔

یہ تمام معصومین(ع) کی زندگی اور موت کی مشترک کیفیت بتلاتی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کا طرزِ عمل ایک واحد نظام کا جز تھا جس کے قیام کے مجموعی حیثیت سے وہ سب ذمہ دار تھے ۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next