انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


اس دور اور اس کے بعد جناب امیر(ع) کے دور میں جو کچھ حسن مجتبیٰ (ع) کے بارے میں کھا جا چکا وہ حسین(ع) کی سیرت کے ساتھ بالکل متحد ھے اس لئے کہ ایک سال کے فرق سے کوئی فرق احساسات، تاثرات اور ان کے مقتضیات میں نھیں ھوتا۔ جن واقعات سے جتنا وہ متاثر ھو سکتے تھے اتنا ھی یہ اثر لے سکتے تھے ۔ وفات رسول کے بعد سے ۲۵ برس کا دور جو امیرالموٴمنین نے گوشہ نشینی میں گزارا وہ جس طرح ان کے لئے ایک دور ابتلاء تھا ان کے لئے بھی تھا۔ جو جو مناظر ان کے سامنے آ رھے تھے وہ ان کے سامنے بھی بلکہ امام حسن(ع) کو تو دنیا نے صرف بحیثیت صلح پسند اور حلیم کے پھچانا ھے ۔ اس لئے وہ اس دور میں ان کے امتحان کی عظمت کو بآسانی شاید محسوس نہ کرے مگر حسین(ع) کو تو دنیا نے روز عاشور کی روشنی میں دیکھا ھے اور بڑا صاحب غیرت و حمیت، خوددار، گرم مزاج اور اقدام پسند محسوس کیا ھے ۔ اس روشنی میں ۲۵ برس کے دور خاموشی پر نظر ڈالئے ۔ ظاھر ھے کہ ان کے شباب کی منزلیں وھی تھیں جو حضرت امام حسین(ع) کی تھیں ۔ ۲۵ سال کی مدت کے اختتام پر وہ ۳۳ برس کے تھے تو یہ بتیس برس کے گویا۔ عمر کے لحاظ سے حسین(ع) اس وقت عباس(ع) تھے کربلا میں جو ابوالفضل العباس کے شباب کی منزل تھی وہ ۲۵ سال کی گوشہ نشینی کے اختتام پر حسین(ع) کے شباب کی منزل تھی ۔ اس عمر تک وہ تمام واقعات سامنے آتے ھیں جو اس دور میں پیش آتے رھے ۔ اور امام حسین خاموش رھے ۔ مصائب و حوادث کے وہ تمام جھونکے آئے اور ان کے سکوت کے سمندر میں تموج پیدا نہ کر سکے ۔

ان کے ۲۵ برس حضرت علی(ع) کی خاموشی کے ھمدم، وہ حضرت رسول پر مظالم دیکہ رھے تھے جو ان کے مجازی حیثیت سے باپ کی حیثیت رکھتے تھے اور یہ حضرت علی(ع) پر مظالم دیکہ رھے تھے جو ان کے حقیقی حیثیت سے باپ تھے جس طرح وھاں کوئی تاریخ نھیں بتاتی کہ کسی ایک دفعہ بھی علی(ع) کو جوش آ گیا ھو اور رسول کو علی(ع) کے روکنے کی ضرورت پڑی ھو ۔ اسی طرح کوئی روایت نھیں بتاتی کہ اس ۲۵ برس کی طویل مدت میں کبھی حسین(ع) کو جوش آ گیا ھو اور حضرت علی(ع) نے بیٹے کو روکنے کی ضرورت محسوس فرمائی ھو یا سمجھانے کی کہ یہ نہ کرو ۔ اس سے ھمارے مقصد یا اصول کو نقصان پھنچے گا۔

اس کے بعد وہ وقت آیا کہ جب حضرت علی(ع) نے میدان جھاد میں قدم رکھا۔ تو اب جھاں حسن(ع) تھے وھیں حسین(ع) بھی تھے ۔ وہ باپ کے داھنی طرف تو یہ بائیں طرف۔ ھر معرکہ میں عملی حیثیت سے شریک ھیں ۔ اس کے بعد جب صلح نامہ لکھا گیا تو جھاں بڑے بھائی کے دستخط وھیں چھوٹے بھائی کے دستخط۔ جناب امیر کی شھادت کے بعد اسی طرح یہ حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ ھیں جھاد میں بھی اور صلح میں بھی ۔ ابو حنیفہ دنیوری نے الاخبار الطوال میں لکھا ھے کہ صلح کے بعد دو شخص امام حسن(ع) کے پاس آئے ۔ یہ جذباتی قسم کے دوست تھے صحیح معرفت نہ رکھتے تھے انھوں نے سلام کیا:

اسلام علیک یامذلَ الموٴمنین

”اے مومنوں کو ذلیل کرنے والے آپ کو سلام ھو۔“

یہ بخیالِ خود مومنین ھیں جن کا یہ اخلاق ھے اور یہ ان کا بلند اخلاق ھے کہ ایسے الفاظ کے ساتھ جو سلام ھو اس کا بھی جواب دینا لازم سمجھتے ھیں ۔ اور ملائمت کے ساتھ فرماتے ھیں ۔

لست مذلّھم بل معذّھم میں نے مومنین کو ذلیل نھیں کیا بلکہ ان کی عزت رکھلی، اس کے بعد مختصر طور پر انھیں صلح کے مصالح سمجھائے جس پر وہ خاموشی سے واپس ھو گئے اور اب وہ اٹھ کر امام حسین(ع) کے پاس آئے اور خود ھی یہ واقعہ پیش کیا کہ ھم سے امام حسن(ع) سے یہ گفتگو ھوئی ھے ۔ آپ نے امام حسن(ع) کا جواب سننے کے بعد فرمایا: صدق ابو محمّد یعنی حضرت امام حسن(ع) نے بالکل سچ فرمایا۔ صورت حال یھی تھی اور اس کا تقاضا اسی طرح تھا۔

بعض سورما قسم کے آدمی آئے اور انھوں نے کھا: آپ حسن مجتبیٰ (ع) کو چھوڑیئے، وہ صلح کے اصول پر برقرار رھیں مگر آپ اٹھئے ھم آپ کے ساتھ ھیں اچانک حکومت شام پر ھلہ بول دیں ۔ امام حسین(ع) نے فرمایا: غلط بالکل غلط۔ ھم نے ایک معاھدہ کر لیا ھے اور اب ھم پر اس کا احترام لازم ھے ۔ ھاں اسی وقت حضرت نے یہ کھہ دیا کہ تم میں سے ھر ایک کو اس وقت تک بالکل چپ چاپ بیٹھا رھنا چاھئے جب تک یہ شخص یعنی معاویہ زندہ ھے ۔ یہ آپ کا تدبر تھا۔ آپ جانتے تھے کہ معاویہ کی طرف سے آخر میں اور شرائط کے ساتھ اس شرط کی خلاف ورزی ھو گی کہ انھیں اپنے بعد کسی کو نامزد نہ کرنا چاھئے ۔ اس وقت ھمیں اٹھنے کا موقع ھو گا۔

اب کون کھہ سکتا ھے کہ حسن(ع) کی صلح کے بعد حسین(ع) کی جنگ کسی پالیسی کی تبدیلی، ندامت و پشیمانی یا اختلاف رائے و مسلک کا نتیجہ تھی؟ ۲۰ سال پھلے کھا جا رھا ھے کہ ھمیں اس وقت تک خاموش رھنا چاھئے جب تک معاویہ زندہ ھے اس سے ظاھر ھے کہ ۲۰ برس کی طویل راہ کے تمام سنگ میل نظر کے سامنے ھیں اور پورا لائحہ عمل پھلے سے بنا ھوا ھے مرتب ھے اس کے معنی یہ ھیں کہ یہ طویل سکوت بھی اسی معاھدہ کے تحت ضروری ھے اور اس وقت کے اقدام کا بھی اسی معاھدہ کے ماتحت حق ھو گا۔ کیا اس کے بعد بھی اس میں کوئی شک ھے کہ حسن مجتبیٰ (ع) کی صلح حسین(ع) بن علی(ع) جنگ کی ایک تمھید ھی تھی ۔ اور کچھ نھیں ۔

۴۱ہ میں یہ صلح ھوئی اور ۶۰ہ میں معاویہ نے انتقال کیا اس بیس سال کی طولانی مدت میں کیا کیا ناسازگار حالات پیش آئے اور عمال حکومت نے کیا کیا تکلیفیں پھنچائیں مگر ان تمام حالات کے باوجود جس طرح رسول کے ساتھ علی(ع) مکہ کی تیرہ برس کی زندگی میں جس طرح حضرت علی(ع) کے ساتھ حسن مجتبیٰ (ع) اور خود حسین(ع) ۲۵ برس کی گوشہ نشینی کے دور میں، اسی طرح حضرت امام حسن(ع) کے ساتھ امام حسین(ع) دس برس کے ان کے دور حیات میں جو صلح کے بعد تھا حالانکہ اس زمانہ کے حالات کو وہ کن عمیق قلبی تاثرات کے ساتھ دیکھتے تھے ان کا اندازہ خود ان کے اس فقرے سے ھوتا ھے جو انھوں نے حضرت امام حسن(ع) کے جنارے پر مروان سے کھا تھا۔ جب مروان نے وفات حسن(ع) پر اظھار افسوس کیا تو امام حسین(ع) نے فرمایا کہ اب رنج و افسوس کر رھے ھو اور زندگی میں ان کو غم و غصہ کے گھونٹ تم پلاتے تھے جو کہ یاد ھیں مروان نے جواب دیا بے شک! وہ ایسے کے ساتھ تھا جو اس پھاڑ سے زیادہ متحمل اور پرسکون تھا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next