انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


اب امام حسین(ع) کے لئے وہ شاھراہ سامنے آ گئی جو انکارِ بیعت سے شروع ھوئی اور آخر تک انکارِ بیعت ھی کی شکل میں قائم رھی ۔

پھر اس انکارِ بیعت کو کیا کوئی وقتی، جذباتی فیصلہ یا ھنگامی جوش کا نتیجہ سمجھا جا سکتا ھے؟

یاد رکھنا چاھئے کہ انکارِ بیعت تو ابھی قانونی جرم قرار بھی نہ پایا تھا۔ خلافت ثلٰثہ میں بھت سوں نے بیعت نھیں کی ۔ حضرت علی(ع) کے دور میں عبداللہ بن عمر نے بیعت نھیں کی اسامہ بن زیدۻ نے بیعت نھیں کی سعد بن ابی وقاص نے بیعت نھیں کی ۔ حسان بن ثابت نے بیعت نھیں کی ۔ مگر ان بیعت نہ کرنے والوں کو واجب القتل نھیں سمجھا گیا۔

امام حسین(ع) نے بیعت نہ کرکے اپنے کو حمایتِ باطل سے الگ کیا بس۔ اس کے علاوہ کوئی اقدام نھیں کیا۔ مگر معاویہ کے بعد جب یزید برسراقتدار آیا تو اس نے پھلا ھی حکم اپنے گورنر ولید کو یہ بھیجا کہ حسین(ع) سے بیعت لو اور بیعت نہ کریں تو ان کا سر قلم کرکے بھیج دو ۔ یہ تشدد کا آغاز کدھر سے ھو رھا ھے؟ حاکم مدینہ کو اس حکم کی تعمیل کی ھمت نہ ھوئی تو اسے معزول کیاگیا۔ امام حسین(ع) کو اگر تشدد سے کام لینا ھوتا تو آپ ھلاکت معاویہ کی خبر ملتے ھی مدینہ کے تخت و تاج پر قبضہ کر لیتے جو اس وقت ان کے لئے کچھ مشکل نہ تھا۔ اس کے بعد کم از کم عالم اسلام تقسیم تو ھو ھی جاتا مگر آپ ایسا نھیں کرتے بلکہ جا کر مکہ میں پناہ لینے کے معنی یہ ھیں کہ ھمیں کسی کی جان لینا نھیں ھے اپنی جان بچانا منظور ھے ۔

بظاھر اسباب اگر یھاں قیام کا ارادہ مستقل نہ ھوتا تو احرام حج کیوں باندھتے؟ احرام باندھنا خود نیت حج کی دلیل ھے اور نیت کے بعد بلاوجہ حج توڑنا جائز نھیں ۔ حضرت امام حسین(ع) سے بڑھ کر مسائل شریعت سے کون واقف ھو گا اور یہ ان کا مخالف بھی خیال نھیں کر سکتا کہ وہ جان بوجہ کر حکم شریعت کی معاذ اللہ مخالفت کریں گے اور وہ بھی کب؟ جب کہ حج کو صرف ایک دن باقی ھے ۔

وہ جن کاذوق حج یہ تھا کہ مدینہ سے آ آ کر ۲۵ حج پا پیادہ کر چکے ھیں اب مکہ میں موجود ھوتے ھوئے حج کو عمرہ سے تبدیل فرما دیتے اور مکہ سے روانہ ھو جاتے ھیں ۔ اس طرز عمل سے خود ظاھر ھے کہ اس کا سبب غیرمعمولی اور ھنگامی ھے ۔ چنانچہ ھر ایک پوچہ رھا تھا اور بڑی وحشت اور پریشانی کے ساتھ! آپ اس وقت مکہ چھوڑ رھے ھیں؟“

یہ ھر سوال امام(ع) کے دل پر ایک نشتر تھا۔ ھر ایک سے کھاں تک بتلاتے ۔ کسی کسی سے کھہ دیا کہ نہ نکلتا تو وھیں قتل کر دیا جاتا اور میری وجہ سے حرمت خانہ کعبہ ضائع ھو جاتی ۔

مکہ میں آنا بھی خطرہ کو حتی الامکان ٹالنا تھا اور اب مکہ سے جانا بھی یھی ھے اب آپ کوفہ تشریف لئے جا رھے ھیں ۔ جھاں کے لوگوں نے آپ کو اپنی ھدایت دینی اور اصلاحِ اخلاقی کے لئے دعوت دی ھے مگر بیچ میں فوج حر آ کر سد راہ ھوتی ھے اب آپ پھلا کام یہ کرتے ھیں کہ اس پوری فوج کو جو پیاسی ھے سیراب کر دیتے ھیں ۔ یہ فیاضی بھی جنگجویانہ انداز سے بالکل الگ ھے اس کے بعد وہ موقع آیا کہ نھر پر خیموں کے برپا کرنے کو روکا گیا اس وقت اصحاب کی تیوریوں پر بل تھے مگر امام(ع) نے فرمایا کہ مجھے جنگ میں ابتداء کرنا نھیں ھے ۔ ریت ھی پر خیمے برپا کر دو ۔ یہ نفس پر جبر اور حلم و تحمل وہ کر رھا ھے جسے بالآخر جان پر کھیل جانا اور اپنا پورا گھر قربان کر دینا ھے مگر وہ اس وقت ھو گا جب اس کا وقت آئے گا اور یہ اس وقت ھے جب اس کا وقت ھے ۔

پھر عمر سعد کربلا میں پھنچتا ھے تو آپ خود اس کے پاس گفتگوئے صلح کے لئے ملاقات کا پیغام بھیجتے ھیں ۔ ملاقات ھوتی ھے تو شرطیں ایسی پیش فرماتے ھیں کہ ابن سعد خود اپنے حاکم عبیداللہ بن زیاد کو لکھتا ھے کہ فتنہ و افتراق کی آگ فرو ھو گئی ۔ اور امن و سکون میں کوئی رکاوٹ نہ رھی ۔ حسین ملک چھوڑنے تک کے لئے تیار ھیں اس کے بعد خونریزی کی کوئی وجہ نھیں ۔

اب یہ تو فریق مخالف ک اعمل ھے کہ اس نے ایسے صلح پسندانہ رویہ کی قدر نہ کی اور صلح کے لئے بڑھے ھوئے ھاتہ کو جھٹک کر پیچھے ھٹا دیا لیکن اس شرط پر حکومت مخالف راضی ھو گئی ھوتی ۔ پھر حضرت امام حسن اور امام حسین(ع) کی افتادِ طبع میں کسی اختلاف کا تصور کرنے والوں کے تصورات کی کیا بنیاد باقی رہ سکتی تھی اور صورت حال کے سمجھنے کے بعد اب بھی یہ تصورات تو غلط ثابت ھو ھی گئے مگر وہ ابن زیاد کی تنگ ظرفی فرعونیت اور یزید کے منشاء کی تکمیل تھی کہ اس نے حضرت امام حسین(ع) پر صلح و امن کے سب راستوں کو بند کر دیا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next