انسانی رفعت

علامہ سید علی نقی نقوی(نقن)


اب ایسے انسان کو کیا کھا جائے؟ جنگ پسند یا عافیت پسند؟ ماننا پڑے گا کہ یہ کچھ بھی نھیں ھیں یہ تو فرائض کے پابند ھیں جب فرض ھو گا خاموشی کا تو خاموش رھیں گے ۔ چاھے شباب کی حرارت اور اس کا جوش و ولولہ کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو ۔

اس وقت کتنے ھی صبرآزما مشکلات پیش آتی رھیں وہ صبر کریں گے اور گھبرائیں گے نھیں ۔

اور جب فرض محسوس ھو گا کہ تلوار اٹھائیں تو تلوار اٹھائیں گے، چاھے بڑھاپے کا انحطاط جو عام افراد میں اس عمر میں ھوا کرتا ھے کچھ بھی تقاضا رکھتا ھو ۔ اب حرب و ضرب کی سختیوں کا مقابلہ کرنے میں وہ جوانوں سے آگے نظر آئیں گے ۔ یھی وہ ”معراج انسانیت“ ھے، جھاں تک طبیعت، عادت اور جذبات کے تقاضوں میں گرفتار انسان پھنچا نھیں کرتے ۔

معراجِ انسانیت سیرتِ حَسْنَیْن کی روشنی میں

جبکہ حضرت پیغمبر خدا کی واحد زندگی میں مختلف نمونے سامنے آ گئے جو بظاھر متضاد ھیں ۔ حضرت علی بن ابی طالب (ع) کی واحد زندگی میں ایسی ھی مثالیں سامنے آ گئیں تو اب اگر دو شخصیتوں میں باقتضائے حالات اس طرح کی د و رنگی نظر آئے تو اس کو اختلاف طبیعت یا اختلاف رائے کا نتیجہ سمجھنا کیونکر درست ھو سکتا ھے اور یہ کیوں کھا جائے کہ حسن مجتبیٰ (ع) طبعاً صلح پسند تھے اور امام حسین (ع)طبعاً جنگ پسند تھے بلکہ یھی سمجھنا چاھئے کہ اس وقت کے حالات کا تقاضا وہ تھا اور اس وقت کے حالات کا تقاضا یہ ھے کہ اس وقت حسن مجتبیٰ (ع) امام تھے ان کو فریضھٴ الٰھی وہ محسوس ھوا اور اس وقت حضرت حسین بن علی(ع) امام تھے، ان کو فریضھٴ ربانی اس وقت کے حالات میں یہ محسوس ھوا۔ اس میں جذبات کا کوئی دخل نہ تھا۔

یھی وہ حقیقت ھے جس کا حضرت پیغمبر خدا نے مختلف الفاظ میں پھلے سے اظھار فرما دیا تھا۔ کبھی ان الفاظ میں کھ: ابنای ھٰذان امامان قاما اوقعدا۔ ”یہ میرے دونوں فرزند امام (ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں۔“

اس وقت کی دنیا اس کو نھیں سمجھ سکتی تھی کہ امام (ع) کھنے کے ساتھ قاما اوقعدا۔ کس لئے کھا جا رھا ھے؟ امامت میں اٹھنے اور بیٹھنے کا کیا دخل ۔ مگر جب مستقبل نے واقعات پر سے پردہ ھٹایا تو اب معلوم ھوتا ھے کہ پیغمبر ماضی کے آئینہ میں مستقبل کا نقشہ دیکہ رھے تھے کہ ایک صلح کرکے بیٹہ جائے گا اور ایک تلوار لے کر کھڑا ھو جائے گا۔ کچھ لوگ حسن(ع) کی صلح پر اعتراض کریں گے اور کچھ لوگ حسین(ع) کی جنگ پر۔ آپ نے اسی لئے ارشاد فرمایا کہ یہ دونوں امام(ع) ھیں چاھے کھڑے ھوں اور چاھے بیٹھے ھوں ۔ یعنی حسن(ع) صلح کرکے بیٹہ جائے تو اعتراض نہ کرنا اور حسین(ع) تلوار لے کر کھڑا ھو جائے تو اعتراض نہ کرنا وہ بیٹھنا بھی حکم خدا سے ھے اور یہ کھڑا ھونا بھی حکم خدا سے ھے وہ اس وقت کے حالات کا تقاضا ھے اور یہ اس وقت کے حالات کا۔

اور کبھی اس طرح جسے علامہ ابن حجر نے لکھا ھے کہ سیدھ(ع) عالم اپنے والد بزرگوار حضرت رسول کے پاس دونوں شاھزادوں کو لے کر حاضر ھوئیں اور عرض کیا۔ یَا آبَتِ ھٰذَانِ ابْنَاک انحَلْھُمَا ابا جان یہ دونوں بچے آئے ھیں انھیں کچھ عطا فرمائیے۔“ حضرت نے فرمایا: اَمَّاالْحُسْنُ فَلَہ حِلمِی وَ سوُدَدِی واَمّالْحُسَیْنُ فَلَد‘ جُراٴتِی وَجُودِی مطلب یہ ھوا کہ انھیں اور کسی عطیہ کی کیا ضرورت ھے ان میں تو میری صفتیں تقسیم ھو گئی ھیں حسن(ع) میں میرا حلم ھے اور میری شان سرداری اور حسین(ع) میں میری جراٴت و ھمت ھے اور میری فیاضی…اب تقسیم پر غور کیجئے ۔ معلوم ھوتا ھے ۔ کہ ظرف زمانہ کے لحاظ سے جس کو جس صفت کا مظھر بننا تھا اسی صفت کو رسول نے اپنا قرار دیا۔ تاکہ اس صفت سے جو کارنامہ ظھور میں آئے وہ کسی مسلما ن کے نزدیک قابل اعتراض نہ ھو سکے ۔

اب اس کا مطلب یہ ھوا کہ حسن(ع) کی صلح کو حسن(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میرے حلم کا نتیجہ ھے اس کا مطلب صاف یہ ھے کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسن(ع) کرے گا اور حسین(ع) کی جنگ کو حسین(ع) کی طبیعت کا تقاضا نہ سمجھنا بلکہ وہ میری جراٴت کا نتیجہ ھے اور اس کا مطلب یہ ھوا کہ اس موقع پر میں ھوتا تو وھی کرتا جو حسین(ع) کرے گا۔

اب حسن(ع) کی صلح پر اعتراض رسول(ع) کے حلم پر اعتراض ھے اور حسین(ع) کی جنگ پر اعتراض رسول(ع) کی جراٴت پر اعتراض ھے ۔

حقیقت یہ ھے کہ حسن(ع) نے صلح کرکے جھاد حسین(ع) کے لئے زمین ھموار کر دی ۔ وہ صلح اس وقت نہ ھوتی تو اس کے بعد جھاد کا یہ ھنگام نہ آ سکتا۔ کیونکہ اسلام میں جنگ بہ مجبوری ھوتی ھے عدم امکانِ صلح کی بنا پر جب تک اصول کے تحفظ کے ساتھ صلح کا امکان ھو اس وقت تک جنگ کرنا غلط ھے جب کہ آئین اسلام میں صلح کا درجہ جنگ پر مقدم ھے تو اگر امام حسن(ع) صلح نہ کر چکے ھوتے تو اتمام حجت نہ ھوتی اور حضرت امام حسین(ع) کے لئے جنگ کا موقع پیدا نہ ھوتا۔



back 1 2 3 4 5 6 7 8 9 10 11 12 13 14 15 16 17 18 19 20 21 22 next